• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • وبا کا خراج اور تاریکی کےفرزند  ۔۔چوہدری نعیم احمد باجوہ

وبا کا خراج اور تاریکی کےفرزند  ۔۔چوہدری نعیم احمد باجوہ

مارٹن لوتھر کنگ نے نسلوں کو  نفرت کی بھینٹ چڑھتے دیکھا ۔انسان  کہلانے والا   اپنے ہی برادر زادوں کے لئے کتنا  وحشی کتنا  ظالم ہو سکتا  اور ذلت کی کن اتھاہ گہرائیوں میں اتر سکتا ہے ،اس کا گواہ بھی بنا ۔ نفرت ، وحشت ،  درندگی اور رنگ ونسل کی بنیاد پر اٹھائی گئی دیواروں کے سائے روح انسانی کو کس طرح پامال کرتے ہیں ،اس بات کا تجربہ تھا ۔امتیازی سلوک کے شکار ابنائے  آدم  کی نسلیں کس  کس محرومی کا شکار ہوتی ہیں اس کا اندازہ بھی تھا ۔  کنگ کے سامنے راستہ تھا کہ ا س کے بھائی بند نفرت کو ہوا  دے کر نسلوں کا خراج دیتے جائیں یا محبت کے خوشنما پھول اُگانے کی سعی میں مصروف ہوں ۔ اس نے  کہہ  دیا:

سن لو! تاریکی کے فرزند تاریکی سے نہیں نکال سکتے  صرف روشنی ہی اندھیرے کی مہیب راتوں کو  چیر سکتی ہے ۔ نفرت کے جذبے نفرت کو مٹا نہیں سکتےصرف محبت کی شمع  یہ کرامت دکھا سکتی ہے ۔

۔Darkness  can  not drive out darkness; only light  can  do that.Hate  can  not drive out  hate;only love can do that

وبا کے ان دنوں میں زندگی کی صورت ایسے ہی ہے جیسے بند مٹھی سے ریت  پھسلتی جا رہی ہو۔جتنا اسے دبانے کی کوشش  میں ہیں اسی قدر زندگی   لمحہ لمحہ قطرہ قطرہ بہتی جا رہی ہے ۔ کرہ ارض پر موجود انسان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہاہے۔  اگلی دفاعی صفوں میں ساری انسانیت کا خراج دیتے مسیحا   آخری پیغام میں  یہی استدعا  لبوں پر لئے اٹھتے جاتے ہیں کہ احتیاط،احتیاط،احتیاط، اے گروہِ  انساں  رک جا،صبر کر لے ، ٹھہر جا ۔

لمحہء موجود میں  اس دشمنِ  جان وائرس سے محفوظ رہنے کا صرف یہی ایک طریق انسان کو معلوم ہے کہ ہم  قدم قدم ا س سے دور ہوتے جائیں ۔ قریب  آنے دیں، نہ اس کے  قریب جائیں ۔یہ  ایک انسان سے چھلانگ لگا کر دوسرے پر کب  چڑھ دوڑتا ہے  معلوم بھی نہیں پڑتا۔ بس اس کی چھلانگ کےفاصلے سے دور رہو ۔  ابھی تو میٹر چل رہا ہے۔ کوئی دن یہ شمار سے باہر نہ ہو جائے۔ کیا پتا گنتی بھی ہو پائے گی یا نہیں۔ نامعلوم یہ کب ،کیسے اور کہاں  رکے گا ۔ کتنے لاشے اور گرنے والے ہیں ۔  کتنے پیاروں کو گورمیں اترنا ہے  ابھی۔ اور گور بھی سب کو میسر کہاں۔ ابھی سے ان لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے نت نئے طریق  سامنے آرہے ہیں ۔

ابتدائی دنوں میں سامنے آنے والے  مفروضے ایک ایک کر کے دم توڑتے چلے جا رہے ہیں ۔وبا کو  بوڑھوں کی شامت سمجھنے والوں نے جوانوں کے لاشے بھی اٹھا لئے ، نابالغوں تک بھی اس بےرحم  کےپنجے آپہنچے  ۔چھ ہفتے کی  کم سن جان بھی محفوظ نہ رہی ۔کافروں کے لئے عذاب سمجھنے والوں کو اہل ایمان کے تابوت بھی اٹھا نےپڑ گئے۔گوروں کی بیماری کہنے والوں نے کالے بھی قبر میں اترتے دیکھ لیے۔

مشرق و مغرب شمال و جنوب میں، یورپ و ایشیاء  امریکہ و افریقہ میں صاحبان اقتدار صرف انسانی جانوں  کی حفاظت کی خاطر اوربقا ئے حیات کے لئے  اجتماعی زندگی ، تعلیم ، معیشت ، رہن سہن ، رسم و رواج سب داؤ پر لگا بیٹھے ہیں کہ کسی طرح اس  دَور سے نکل آئیں ۔

دنیا اپنی تما م تر صلاحیتیں  بروئے کا رلا رہی ہے ۔  بڑے بڑے اسٹیڈیم ہسپتالوں میں تبدیل ہوئے،  عبادت گاہیں قرنطینہ سنٹر بن گئے ۔ دبئی کا ورلڈ ٹریڈ سنٹر کورونا سنٹر میں تبدیل  ہو چکا ۔ عالمی معیشت ۳ فیصد تک سکڑنے کا امکان سامنے ہے۔کورونا 1930کی کساد بازاری سے بھی زیادہ خطرناک ہو گا۔’’گریٹ ڈپریشن ‘‘  سے بڑا جھٹکا معیشت کو آنے والا ہے کچھ ایسا ہی کہہ  رہے ہیں ماہرین ۔

اس بھرے میلے میں  ایک ہم  ہیں جنہوں  نے پہلے دن سے وبا  کو ایمان سے تولنا شروع کیا ۔ ہمیں اس میں کبھی یہود و ہنود کی سازش  دکھائی دی تو کبھی  اسلام پر حملہ۔ کبھی  صرف ہماری نمازوں کو بند کرنے کا بندوبست تو کبھی خانہ کعبہ میں طواف کی بندش دشمن اسلام طاقتوں کا ایجنڈا۔ہم وبا کو کبھی پھونکو ں سے اڑانے چلے تو کہیں اپنے نعروں سے بھگانے میں مصروف ہیں ۔

جہاں ساری دنیا اختلافات بھلا کر انسانیت کے عَلم کے نیچے متحد ہونے کی بات کر رہی ہے وہاں ہمارا ایک کاروبار بند  ہونے کو نہیں آرہا ۔ نفرت کا کاروبار ۔ ۔ معاشرے کی طبقاتی اور  مذہبی  تقسیم در تقسیم کا کاروبار ۔ دنیا بھر میں بیسیوں ممالک نے ہزاروں قیدی آزاد کر دیے ہیں ۔ ہم  اپنی اناؤں کے قیدی مگر   یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایسا کیوں کیا جارہا ہے۔  صرف  ا س لئے مجرم   تو تھے پر انسان تو بہر حال ہیں ۔ جو بچ سکتے ہیں بچا لئے جائیں  خواہ مخواہ انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو جائے۔

دنیا وبا سے نمٹ رہی ہے اور ہمارے ایمان اس بات پر لُٹ رہے ہیں کہ ضرورت مندوں  کی مدد کے لئے جاری کیے گئے  پروگرام  ’’ٹائیگر فورس ‘‘ میں احمدی  کیوں  شامل  ہو رہے ہیں۔ انہوں  نے پریس ریلیز کیوں جاری کی کہ امداد کا چیک دیا  اور امدادی سامان تقسیم کیا ہے۔ انسانوں پر کفر و الحاد کی مہریں لگاتے لگاتے کمریں کبڑی کر لینے والے  اب آٹا چاول چینی کو بھی مسلم  اور کافر قرار دینے پر تلے ہیں ۔   نہیں جانتے کہ   بھوک سب سےبڑا المیہ ہے ۔ کافر آٹا ، ملحد چینی  ،دجالی چاول منظور نہیں تو ’’مسلمان راشن ‘‘  کی برکات کہاں ہیں؟ کیوں  لاکھوں بندگان خدا بھوکے سوتے ہیں ؟ہماری مسلمانی ہمیں دور فاروقی میں کیوں نہ لے گئی؟رات کے اندھیرے میں کتنے جُغا دری خمیدہ کمر بندگانِ خدا کے در پر راشن دیتے دیکھے گئے۔یہاں تو بڑے سے لےکر چھوٹے تک خود نمائی کے طوق گلوں میں آویزاں کیے  پائے جاتے ہیں۔ آج تک سُودی قرضوں کے خلاف کس جبہ دار نے زبان کھولی۔سودی  ڈالرز حلا ل ہیں اور احمدیوں کا آٹا حرام ۔

عوام کو کچھ سمجھنا ہے شاید۔ مسئلہ  احمدی، سکھ ،  ہندو اور عیسائی سے ملنے والی امداد کا  نہیں ۔ تکلیف اس اکٹھ سے ہے کہ عوام میں لین دین بڑھا تو قربت بڑھے گی۔  اظہار تشکر ہونے لگا تو  دید لحاظ پیدا ہوگا ۔ محبت کے جذبات پروان چڑھنے لگے لوگ باگ   ایک دوسرے کی مدد کو بلا امتیاز رنگ و نسل مذہب و ملت  پہنچنے لگیں گے۔ یہ چلن پھر سے عام ہونے لگا  تو مذہب کو اپنی  دستار فضیلت  کی کسی گرہ میں گروی سمجھنے والوں   کا دہائیوں کا سفر کھوٹا ہو جائے گا ۔  فیصلہ مگر عوام نے کرنا ہے   کہ نفرت کی  اندھیر نگری سے نکلنے کے لئے تاریکی کے فزندوں کا ہاتھ تھامنا ہے یا  روشنی کی کرن کی طرف گامزن ہو کر صبح نو کا استعارہ پانا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سن لو! تاریکی کے  فرزند تاریکی سے نہیں نکال سکتے  صرف روشنی ہی اندھیرے کی مہیب راتوں کو  چیر سکتی ہے ۔ نفرت کے جذبے نفرت کو مٹا نہیں سکتےصرف محبت کی شمع  یہ کرامت دکھا سکتی ہے ۔

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply