مفاہت اور این آراو میں فرق۔۔شہزاد سلیم عباسی

جنوبی افریقہ کے   پہلے جمہوری سیاہ فام صدر نیلسن مینڈیلا کا نام انسانی معلوم تاریخ کی ان چند شخصیات میں شامل ہے جنہیں تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔جنوبی افریقہ کے بابائے قوم مینڈیلا ایسا روشن باب ہے جس نے نسلی امتیاز کے خلاف ایک پُرامن طویل جدوجہد کی اور عفو ودرگزر کیساتھ عظیمت کا راستہ اپنایا۔چند دہائیوں قبل جنوبی افریقہ  میں نسل پرستی اور نفرتوں کی آگ بھڑک رہی تھی۔ برطانوی سامراج کا اقتدار ختم ہو چکا تھا۔لیکن برطانوی حکم نامے کے خاتمے کے بعد سفید فام ملک پر قابض ہو گئے اور تمام تر بنیادی حقوق غصب کرنا شروع کردیے اور ہر مخالف اٹھنے والی آوازکو دبانے کے لیے اسے خلاف آئین اور حقوق کی آواز بلند کرنے کو ملک سے غدار ی کا نام دے دیا گیا۔ ایسے میں ان جابرانہ اقدامات کے خلاف ایک مرد آہن نیلسن مینڈیلا کی صورت کھڑا ہوا، آوازہ حق بلند کیا اور تحریر ی انداز میں معاشرتی نظام، اخلاقی قدروں اور مساوات کی بات کی اور کہا کہ تلوار کے سائے میں فلاح و بہبود کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا،یہ مثبت رویہ سفید فام ظالموں کو ہضم نہ ہو اورنیلسن مینڈیلا کو عمر قید سزاسنائی۔

27 سالہ جیل کی زندگی انقلابی زندگی تھی، نیلسن مینڈیلا جب بھی عدالت لائے جاتے وہاں ہمیشہ جمہوری نظریات، سماجی و معاشرتی ہم آہنگی، مثالی معاشرت، انسانی حقوق، صنفی مساوات، تعلیم، یکساں مواقعوں اور جنوبی افریقہ کی تعمیر و ترقی کی بات کرتے۔جیل میں رہ کر بھی نیلسن نہ ڈرا،نہ جھکا، نہ بکا،بلکہ اپنی اعلی سوچ سے تحریک کو زندہ رکھا۔ اس دوران ان کے ایک دوست اولیور تیمبو نے بھی نیلسن منڈیلا کے حق میں منظم مہم جاری رکھی اور باالاآخر نیلسن میڈیلا کورہا کردیاگیا۔ملکی تاریخ میں پہلی بار صاف شفاف انتخابات کرائے گئے جس میں عظیم لیڈر کی عظیم قوم نے سیاہ فارم نیلسن کو اپنا حاکم چنا اور پھرTRC (Truth & Reconciliation Commission) کے بانی نیلسن مینڈیلا نہ صرف عوام کی امیدوں پر پورا اترا بلکہ جنوبی افریقا کا نقشہ ہی بدل دیا، عام معافی کیساتھ مفاہمت، محبت اور دیانت داری کیساتھ ملک میں وہ تمام کام کر ڈالے جس کی وجہ سے آج جنوبی افریقہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہے۔نیلسن کہتا تھا انتقام سے قوموں کی تعمیر نہیں تخریب ہو تی ہے اور قوموں کی سربلندی کے لیے اخوت، پیار، صبر صلہ رحمی جیسے جذبات درکار ہوتے ہیں۔مینڈیلا کی صدارت جب ختم ہوئی تو وہ خود اقتدار سے الگ ہو کر مینڈیلا فاؤنڈیشن کے ذریعے فلاحی سرگرمیوں میں مصروف ہوگیا۔

نیشنل ٹروتھ ری کنسلی ایشن وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بے نظیر بھٹو نے نیلسن مینڈیلا ideologyسے متاثر ہو کر 2006ء میں True & Reconciliation Commission پیش کیا اور لندن  میں نواز شریف سے Charter of democracy دستخط کیے۔ جس میں لکھا گیا کہ یہ کمیشن تشدد، قید، ریاستی سرپرستی میں ہونے والے مظالم، یکطرفہ قانون سازی اور سیاسی طور پر ہونے والے احتساب کا پتہ چلائے گا۔یہ کمیشن 1996 ء سے فوجی بغاوتوں اور سول حکومتوں کا تختہ الٹانے کی تحقیقات کر کے حقائق کی رپورٹ پیش کرے گا۔ملک میں سیاسی پولرائزیشن، معاشی پستی، اور قوم کی تقسیم کی وجوہات سامنے لائے گا۔ جو چارٹر آف ڈیموکریسی سائن ہوا اس میں چھ نکات بڑے اہم تھے۔

1۔ 73 ء کے آئین کو اصل شکل میں بحال کیا جائے جیسے یہ 1999 ء سے پہلے تھا۔

2۔ دونوں پارٹیاں اقتدار کے حصول کے لیے موجودہ یا کسی تیسری طاقت سے ڈیل نہیں کریں گی۔

3۔ عدلیہ، قانون اور الیکشن کمیشن کو بااختیار بنایا جائے گا۔

4۔ اگر ایک پارٹی قومی انتخابات جیت جاتی ہے، تو دوسری پارٹی بہترین اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی اور حکومت اس کی سفارشات سنے گی۔

5۔ LFO لیگل فریم ورک آرڈر کو منسوخ کیا جائے گا۔

6۔ سول و ملٹری مشترکہ تعلقات کو استوار کیا جائے گا۔

مذکور ہ بالا کمیشن بنیادی طور پر پاکستانی حکمرانوں سے درخواست تھی کہ ٹروتھ بتاؤ، ری کنسائل کرو اور پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ جسے بعد میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری نے میثاق جمہوریت کے طور پر مسلم لیگ ن کیساتھ جاری رکھا۔ پھر نواز شریف بھی اسے آگے لے کر چلے۔ مگر حقیقت احوال یہ ہے کہ آصف زرداری و نواز شریف سمیت سب مفاہمت سے مُکر گئے۔ بات نیشنل ٹروتھ کے ذریعے معافی اور پھر پاکستا ن کی ترقی کی تھی مگر بات مفاہمت سے این آر او تک چلی گئی۔ اور ملک کی تاریخ بنانے والوں نے مفاہمت کو نیشنل ری کنسلی ایشن آرڈیننس میں بدل دیا جس کی براہ راست ذمہ داری جنرل مشرف پر عائد ہوتی ہے ،جنہوں نے 2007 ء میں این آر او کا نفاذ کیا۔ ملک پر قبضہ کرنے والوں اور معیشت و اقدار کی نیہ ڈبونے والوں کو معافی نامے دیے گئے جو ہنوز ایمنسٹی سکیم یعنی کالے دھن کو سفید کرنے کی شکل میں اب بھی جاری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بدقسمتی سے آج ہم میں کوئی نیلسن مینڈیلا پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی نیلسن مینڈیلا کے نظریات اور چارٹر آف دیموکریسی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حکومتیں اب سیاسی پولرائزیشن اور سیاسی و معاشرتی تقسیم کے ذریعے بنائی جاتی ہیں۔ ملک و قوم کو آگے بڑھا نا ہے تو نیشنل ٹروتھ ری کنسلی ایشن کمیشن بنانے کی اشد ضرورت ہے جو قوم کو حقائق سے روشناس کرے۔۔ فنانشل اور فوجداری کرائم کو سمجھنے والا بااختیار کمیشن بنایا جائے۔ہر میدان کا ایکسپرٹ اس میں شامل ہو۔ ممالک سے اچھے تعلقات استوار کر کے ایمنسٹی جیسی جعلی سکیموں کاخاتمہ کی جائے۔ سیاسی و مذہبی منافرت کو ختم کر کے ریشنل ڈسکورس کو اپنایا جائے، تاکہ حقیقی قانون سازی میں راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو سکے۔ نیلسن مینڈیلا کا فلسفہ تاریخی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ تمام تر تنازعات کاپائیدار حل ڈائیلاگ میں پنہاں ہے، دشمنی ہاتھ ملانے سے ختم ہوتی ہے، ہمیں اس کرّہ ارض کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے نیلسن مینڈیلا کے ویژن سے استفادہ کرنا ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply