ندا مسجد کی دیواروں سے آئی۔۔حافظ علی حسن شامی

کہا اقبال نے شیخِ حرم سے
تہ محرابِ مسجد سو گیا کون

اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں” میں مسجد گیا، میں نے دیکھا مولوی محراب کے نیچے لیٹا سو رہا ہے، میں نے مولوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔

مولوی تو بےخبر سویا ہوا ہے، دیکھ حضورﷺ کی اُمت تباہ و برباد ہوگئی، اسلام کے چمن کو آندھیوں اور طوفانوں نے آن گھیرا ہے، اندھا دھند کالی گھٹائیں مسلمانوں پر چھائیں ہوئی  ہیں، مسلمان بےیارو مددگار غلامی میں پڑے ہوئے ہیں۔”

مولوی خوابِ غفلت سے اُٹھ اور دیکھ۔۔
وہ گلشن جس میں کبھی بہار کا راج تھا، آج خزاں اس گلشن کے ایک ایک پھول کو سُکھا رہی ہے، دیکھ وہ جن کی ہیبت سے زمین کانپا کرتی تھی اور صنم سہمے ہوئے رہتے تھے، وہ غازی کے پُراسرار بندے کئی دوسرے راستوں پر جانکلے ہیں۔

مولوی اُٹھ اور دیکھ۔۔
رسول اللّٰہﷺ کی امت کو کوئی سنبھالنے والا نہیں رہا، وہ چراغ نہیں رہے اِن اندھیری وادیوں میں، وہ بندے نہیں رہے اِن دو جہانوں میں اور وہ سہارے نہیں رہے اِن ویران راستوں پر۔

مولوی اٹھ تو اب تک سو رہا ہے۔۔
اٹھ تو ہی تو اس دین کا محافظ تھا، تو ہی تو اس شریعت کا رہبر تھا اور تو ہی تو وہ روح تھا جس نے دوسری روحوں میں انقلاب برپا کرنا تھا، افسوس در افسوس تو بھی آج سوگیا۔

ندا مسجد کی دیواروں سے آئی
فرنگی بت کدے میں کھو گیا کون؟

اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، میں نے بس اتنا کہا اور مسجد کی زمین کانپ اٹھی، دیواریں چیخ و پکار کرتیں یہ ندائیں دینے لگیں۔ اقبال مسلمانوں کو اب رہبر کی ضرورت نہیں رہی، وہ فرنگیوں سے متاثر ہو چکے ہیں، انہوں نے اسلام کو Modernism کے نام پر بیچ ڈالا ہے، وہ اسلام کے اصل سے بہت دور جانکلے ہیں۔

اقبال! مسلمانوں نے رب کے قہر کو خود آواز لگائی ہے، اس لیے تو آندھی، طوفان اور اندھا دھند کالی گھٹائیں آن پہنچی ہیں، اس لیے تو مسلمان خود کی غلامی کے ساتھ ساتھ آوروں کی غلامی میں دے دیے گئے ہیں۔

اقبال! مسلمانوں نے خزاں کو خود طلب کیا ہے، اب مسلمانوں کی ہیبت سے نہ زمین کانپے گی اور نہ ہی صنم منہ کے بل گر کے قل  ھو اللہ ھو احد کہیں گے اور نہ ہی غازی کے پراسرار بندے اُن راستوں سے واپس آئیں گے، کیونکہ مسلمانوں نے امن کے نام پر بزدلی اختیار کر لی ہے۔

اقبال! وہ چراغ مسلمانوں نے خود اپنے ہاتھوں سے بجھا دیے ہیں، وہ بندے مسلمانوں نے خود دفنا دیے ہیں اور وہ سہارے مسلمانوں نے خود گنوا  دیے ہیں، اقبال! اب مسلمانوں کو محراب و منبر کا نہیں سکولوں اور کالجوں کا اسلام چاہیے۔

اب مسلمانوں کو دین نہیں دنیا چاہیے، اب مسلمانوں کو خلافت نہیں جمہوریت چاہیے، اب مسلمانوں کو اسلامی معاشی نظام نہیں فرنگیوں کا نظامِ معیشت چاہیے، اب مسلمانوں کو اسلامی تعلیمی نظام نہیں ماڈرن ایجوکیشن سسٹم چاہیے، اب مسلمانوں کو مردِ آزاد نہیں مردِ غلام چاہیے۔

اقبال! مولوی تو سوکھی روٹی کھا کر بھی مسجد میں سویا ہوا ہے، لیکن اقبال دیکھ مسلمانوں نے تو محلات میں رہتے ہوئے اسلام کو فرنگیوں کے بازاروں میں بیچ ڈالا ہے، یہ سننا تھا کہ وہ مردِ درویش، مردِ مجاہد، مردِ آزاد اور مردِ پراسرار اقبال آنکھوں کو جھکاتا ہوا یہ صدا لگاتا مسجد سے باہر نکل آیا کہ:

Advertisements
julia rana solicitors london

فرنگی بت کدے میں کھو گیا کون؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ندا مسجد کی دیواروں سے آئی۔۔حافظ علی حسن شامی

  1. السلام علیکم
    میں اس تحریر کے ہر لفظ سے بری الزمہ ہوں۔ میرا اب اس محکمے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس ویب سائٹ سے۔ اس لیے آئندہ کے لیے قارئین اس تحریر کو پڑھنے سے گریز کریں اور اس کو آئندہ کے لیے میری طرف منسوب نہ کریں۔ تحریر کو ڈلیٹ کرنے کا اختیار ویب سائٹ کے مالکان کے پاس ہے۔ وگرنہ میں خود تحریر کو ڈلیٹ کردیتا۔
    (منجانبِ تحریر نگار حافظ علی حسؔن شامی)

Leave a Reply