موقع۔۔مختار پارس

پھر شاید یہ موقع نہ مل سکے۔ مل گیا ہے تو اسے دل کی دھڑکنوں میں پرو کر چشمِ نم پر بکھر جانے دو۔ لفظ زبان سے نکلتے ہیں تو انہیں اُڑنے دوکہ یہ غنیمت ہے۔ ساعتوں میں ثبات نہیں ہوتا۔ اس سے پہلے کہ ایک دم منظر بدل جاۓ اور لوگ بہتی لہروں کے ساتھ پھر سے بہنا شروع کر دیں، سوندھی خاک میں شامل ہو کر ساحل بن جاؤ۔ سالوں پہ محیط لمحے تو پلک جھپکنے میں گزر گئے ، یہ جو لمحہ عطا ہوا ہے، اسے امر کر سکتے ہو تو ضرور کر لو۔

یہ جو دیکھتے ہو، نہ ناروا ہے اور نہ ناراضگی، یہ مشیت ہے۔ یہ نہ سزا ہے اور نہ طلسم، بس ایک جھلک ہے۔ نہ ندیم نہ رحیم، نہ وعدہ نہ وفا، سب انتظامِ فرصتِ احساس ہے کہ وہ ہے۔ اور اس نے کہا تھا کہ راستہ کٹھن ہے، پھسلنا نہیں۔ موقع یہ ہے کہ گریہ نہیں کرو، ثابت قدم رہو۔ یہ ثابت کرو کہ نہ کوئی شہر خدا ہے اور نہ کوئی شہرزاد۔ صرف دکھا دو کہ قوسِ قزح کے تعاقب میں تم قمرِ گہن ہو کرغروب تو نہیں ہو گئے  اورکہیں لذتِ مدح میں انجانے افقوں پر سورج بن کر طلوع ہونا تو نہیں سیکھ لیا۔ جنہیں کچھ دیر کےلیے  یہاں پر بھیجا گیا تھا، کیا انہوں نے یہاں مستقل قیام کا تو نہیں سوچ لیا؟

پانچ ارب برسوں میں آگ جلا کر کھانا پکانے اور کپڑے پہننے کے علاوہ کیا سیکھا ہے؟ انسان ایک مرحلہ طے کرتا ہے تو اس کے آگے اور صحرا تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کی ہر ایجاد چند سالوں میں بے معنی ہو کر نئی ضرورتوں کو جنم دے دیتی ہے۔ کانسی کے زمانے سے کانچ تک کے زمانے کے سفر میں سواۓ کرچیوں کے کچھ نہیں ملا۔ کیا ابنِ آدم کے کندھوں پر پوری نوعِ انسانی کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے یا اس نے اکیلے چھوٹے چھوٹے کام کر کے آدمیت کا پرچار کرنا ہے؟ کیا انسان ایک فرد کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے یا اس کی پہچان اجتماعی طور پر کی جاۓ گی؟ ایک فرد تو ریت کے ایک ذرے سے زیادہ کبھی بھی کچھ نہیں رہا۔ باقی رہا صحرا تو اس کی بابت میں کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ ابھی بھی موقع ہے گر سمجھ لیں کہ تاریخ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ کوئی بادشاہ بن کر مر گیا اورکوئی گدا ہو کر چلا گیا۔ اجتماعی طور پر انسان کی کہانی ضرور آگے بڑھی ہے مگر انفرادی طور پر انسان ‘اقرا باسم ربک الذی خلق’ کے سبق سے آگے نہیں پڑھ سکا۔ اس کے آگے اور ہے ہی کیا؟
ایک نکتہ ہے جو اس مشکل سے نکلنے میں مدد دے سکتا ہے اور وہ یہ کہ زندگی کو سہل نہ جانو۔ زندگی انسان کو حصاروں سے نکلنے کے تین مواقع دیتی ہے؛ پہلی دفعہ جب انسان اپنے نہ ہونے کی فصیلیں پھلانگ کر آ موجود ہوتا ہے۔ اس کی مشکل یہ کہ اسے اب اپنے ہونے کا احساس نہیں جینے دیتا۔ دوسری بار جب انسان اپنی ذات سے نکلنے کا ہنر سیکھ جاتا ہے۔ اب اسے دوسروں کا دکھ نہیں جینے دیتا۔ آخری بار جب اسے جسم و جاں سے نکلنا پڑتا ہے۔ اس بار اسے اپنے پیچھے رہ جانے والی زندگی کا دکھ نہیں مرنے دیتا۔ مگر وہ مر جاتا ہے۔ اگر اسے موقع ملے تو وہ باربار زندہ ہوتا رہے۔ زندگی مگر ایک دفعہ ملتی ہے اور تبھی اس کی ضرورت رہتی ہے۔ زندگی سے نکلنے کا موقع باربار ملتا ہے مگر اس میں لطف بجز عشق ممکن نہیں۔

سارے عالم پر محیط اس اجتماعی گریہ و زاری کا موقع پھر شاید ہمیں اپنی زندگیوں میں نہ مل سکے۔ یہ وہ ساعتِ پریشاں ہے جو آسانی سے نہ کٹے گی۔ جو نہ فصیلِ جاں کو عبور کرے گی اور نہ جاں سے گزر سکے گی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ان آفاقی فیصلوں میں ہم قدرت کی تقسیم پر خوش ہو جائیں۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اس مشکل گھڑی میں ہم خدا کو تلاش کرنے کی بجاۓ خدا کی اس محبت کو تلاش کرلیں جس کی بنیاد پر احترامِ آدمیت کی عبادت ترتیب دی گئی ہے۔ اِس فقیر نے تو یہ بات بار بار دیکھی ہے کہ لوگ موت سے بھاگے نہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے دامن کو داغدار نہیں کیا۔ کسی نے کسی کا ہاتھ تھام لیا تو کسی کو بھوک نہیں لگنے دی۔ کوئی کسی کو جانتا نہیں مگر اس کی دستگیری کرنے میں دیر نہیں کرتا۔ کیا تو نے دیکھا نہیں کہ خدا مسجد سے نکل کر لوگوں کے دلوں میں آ گیا ہے؟ اس سے بڑا موقع ہمیں زندگی میں کب اور کہاں ملے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors

زندگی نایاب ہے کیونکہ دل میں خدا رہتا ہے۔ ہمیں زندگی کو رواں رکھنا ہے۔ یہ رب کی عطا ہے اور اس محبت سے ہمیں کسی کو مرنے نہیں دینا۔ کسی نے سدا یہاں نہیں رہنا مگر جب تک حکمِ خدا ہے، اس زندگی کو دوسروں کی خدمت میں منزلِ مراد بنا کر جینا ہے۔ حاصلِ زیست وہعشقِ بے نیاز جس کی اڑان فلک تک اور جس کی تقدیر خاکدان۔ انسانوں کے مٹ جانے سے انسانیت نہیں مٹتی۔ یہ وہ مقام ہے جو خود خدا کے چاہنے سے وجود میں آیا ہے۔ ایک آتش فشاں پھٹا، کائنات میں پتھر سیاروں کی طرح گھومتے چلے گۓ اور یوں انسان کے رہنےکی جگہ بن سکی۔ زندگی میں ہر بھونچال انسان کو اس کی جگہ پر پہنچانے آتا ہے۔ قیامت بھی جب آۓ گی تو انسان کو اس کا مقام بتانے کےلیے آئے   گی۔ اس لیے اس آفت کو مصیبت نہ سمجھو، یہ تمہیں تمہارا مقام بتانے آئی ہے۔ قدرت یہ موقع باربار نہیں دیتی۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply