• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • احساس پروگرام بعض افراد کے لیے احساس محرومی کیوں۔۔عرفان صادق

احساس پروگرام بعض افراد کے لیے احساس محرومی کیوں۔۔عرفان صادق

کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد پیدا ہوجانے والی صورتحال کے بعد حکومت پاکستان نے اس سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے “احساس پروگرام” کے نام سے مالی معاونت کا پروگرام شروع کیا جس پو پورا اترنے کے بعد حقدار خاندانوں کو 12ہزار روپے کی مالی اعانت کا سلسلہ شروع ہوچکاہے۔ جہاں پر یہ پروگرام لاکھوں خاندانوں کے لیے اس مشکل وقت میں امید کی کرن بن کر سامنے آیا ہے وہیں پر ہزاروں کی تعداد میں ایسے خاندان بھی موجود ہیں جو اس پروگرام کے ثمرات سے مستفید ہونے سے محروم ہورہے ہیں۔ یہ احساس پروگرام ان خاندانوں کے لیے احساس ِ محرومی کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان و آزادکشمیر کے دیگر علاقوں کی طرف ضلع میرپور کے اندر بھی یہ پروگرام پورے زور و شور سے جاری ہے اور اس وقت ہزاروں خاندانوں کو اس پروگرام کے تحت رقوم کی ادائیگی کا عمل مکمل بھی ہوچکاہے۔ پروگرام میں خاندانوں کی رجسٹریشن کاجو عمل کیا گیا اس میں بھی مختلف محکمہ جات کے لوگ شامل تھے تاکہ کسی بھی قسم کی غفلت نہ ہوسکے اس حوالے سے سروے ٹیموں نے بڑی جانفشانی سے محض چند دنوں کے اندر ہی سروے مکمل کرکے اسے نادرا کے ڈیٹا بیس میں منتقل کردیا جس کی وجہ سے بروقت تصدیق کے بعد اب ان خاندانوں کو ادائیگیوں کا سلسلہ  جاری ہے۔ سروے ٹیموں کی محنت، دیانتداری اپنی جگہ تاہم حکومت کی طرف سے اس پروگرام کے حوالے سے جو شرائط رکھی گئی ہیں وہ کافی سخت ہیں۔

اگر میرپور ڈویژن اور بالخصوص ضلع میرپور کے تناظر میں ان شرائط کو دیکھا جائے تو ابھی بھی یہاں ہزاروں خاندان آباد ہیں جو اس پروگرام سے مستفید ہونے سے رہ گئے ہیں۔ اس پروگرام کی شرائط پر پورا اترنے کے لیے سب سے اولین شرط جس کو پرکھا جارہا ہے وہ شناختی کارڈ پر مقامی پتے  کا ہونا ہے۔ ضلع میرپور ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں سے ضلع بھمبر اور ضلع کوٹلی کے کنٹرول لائن کے علاقے صرف چند کلومیٹر کے فاصلہ پر ہی موجود ہیں اور گزشتہ ایک عشرہ میں بھارتی قابض افواج کے مظالم اور آئے روز کی گولہ باری سے متاثر ہوکر ہزاروں خاندان ضلع میرپور کے علاقوں اسلام گڑھ، چکسواری، پلاک، کاکڑہ اور میرپور شہر کے ملحقہ علاقوں میں آبادہ ہوچکے ہیں جن کے شناختی کارڈ پر ابھی بھی یا تو ان کے پرانے گھر کا ایڈریس ہے یا پھر مستقل پتہ کی صورت میں وہ ان کے شناختی کارڈ پر موجود ہے جس کی وجہ سے ان افراد کو رجسٹریشن کے عمل سے دور رکھا گیا ہے۔ ایک طرف تو یہ لوگ بھارتی مظالم سے تنگ آکر اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہیں اور ان میں سے سینکڑوں کی تعداد ان خاندانوں کی ہے جن کے شناختی کارڈ پر صرف ان کا پرانا ایڈریس ہی موجود ہے حقیقت میں ان کے مکانات اور جائیدادیں بھارتی گولہ باری سے تباہ ہوچکی ہیں اور دوسری طرف ان کو موجودہ صورتحال میں بھی مالی معاونت سے محروم کردیا گیا ہے۔یہ ایسے افراد ہیں جن کا یہاں کوئی مستقل کاروبار بھی نہیں تھا اور زیادہ تر افراد دیہاڑی دار مزدو طبقہ سے تعلق رکھتے تھے جن کا ذریعہ معاش کرونا وائر س کی نذر ہوچکا ہے۔

ضلع میرپور کے اندر اس وقت کثیر تعداد میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو پاکستان کے دیگر علاقوں بالخصوص پنجاب اور کے پی کے سے آکر یہاں پر اپنا کاروبار کررہےہیں اس کے ساتھ انہی علاقوں سے آیا ہوا دیہاڑی دار طبقہ بھی کثیر تعداد میں موجود ہے جو اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ یہاں پر رہائش پذیر ہیں تاہم احساس پروگرام میں ان افراد کو بھی شامل نہیں کیا جارہا ہے اور ان کو اس پروگرام سے مستفید ہونے کے لیے اپنے اپنے آبائی علاقوں میں جانے کے سنہری مشوروں سے نوازا جارہا ہے۔

تیسرا طبقہ جو ضلع میرپور کے اندر اس پروگرام سے مستفید ہونے سے قاصر ہے وہ یہاں پر بسنے والے افغان مہاجرین ہیں جو کئی دہائیوں سے یہاس پر آباد ہیں اور یا تووہ اپنے کاربار سے منسلک ہیں یا پھر ان کا تعلق دیہاڑی دار طبقہ سے ہے۔ ایسی مشکل کی گھڑی میں ان افغان مہاجرین کو بھی اس پرگرام میں شامل کرکے سینکڑوں متاثرہ خاندانوں کی دعاؤں کو سمیٹا جاسکتا ہے۔

ضلع میرپور متاثرین منگلاڈیم کا علاقہ ہے جس نے دو بار اپنے گھر بار کی قربانیاں دے کر وطن کی خوشحالی کی بنیاد رکھی۔ جہاں پر متاثرین منگلاڈیم کو ذیلی کنبہ جات جیسی سہولت سے محروم رکھ سینکڑوں خاندانوں کو تاحال ایڈجسٹ نہیں کیا گیا وہیں پر احساس پروگرام میں بھی ایسے بے شمار خاندان ہیں جن میں صرف والد کوہی خاندان کا سربراہ مان کر اس کو رجسٹریشن کے عمل میں شامل کیا گیا ہے۔ دیگر بیٹوں کو اگرچہ وہ اپنی بیوی بچوں کی شکل میں الگ خاندان بھی رکھتے ہیں ان کو اس عمل سے باہر کردیا گیاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

متذکرہ بالا مسائل کے ساتھ ساتھ دیگر بے شمار ایسی وجوہات ہیں جن کے پیش نظر ضلع میرپور کے اندر ہزاروں خاندان اس پروگرام سے مالی فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ احساس پروگرام کی شرائط میں نرمی پیدا کریں تاکہ مزید لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور حکومت پاکستان و آزادکشمیر کی طرف سے عوام کی خدمت اور مشکل کی اس گھڑی میں ان کے لیے تعاون کا جو پروگرام شروع کیا گیا ہے وہ ہر کسی کے لیے باعث رحمت ثابت ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply