جس دن سے کراچی میں کورونا وائرس کی وبا نے اپنے ہونے کا احساس دلایا اور یحییٰ جعفری میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی تھی اس وقت تک دنیا کے دیگر ممالک ہمارے سامنے اس حوالے سے ایک مثال بن چکے تھے ۔ اگر آپ اسی روز سے اب تک ہمارے سوشل میڈیا پر پیغامات یا مضامین دیکھیں تو اس میں زیادہ تر اسی خدشے کا اظہار کیا گیا تھا جو اس وقت ہمارے سامنے سر اٹھا کر کھڑا ہے ۔ مجھ سمیت سوشل میڈیا پر بہت سے سنجیدہ لوگ لوگوں سے بار بار درخواست کرتے رہے کہ خدارا گھروں پر رہیں حکومتی پابندیوں پر سختی سے عمل کریں ۔ماہرین کی جانب سے بتائی جانے والی احتیاط پر لازم عمل کریں ۔ سوشل میڈیا پر کورونا کے حوالے سے طنز و مزاح سے کہیں بہتر ہے آپ لوگوں کو آگاہی دیں کہ ان حالات میں کیا کیا احتیاط کرنی چاہیے اس حوالے سے پیغامات پوسٹ کریں ، ویڈیو اپلوڈکریں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے کورونا کے بارے میں یوں طنز و مزاح کے اس طومار سے لوگ احتیاط سے غافل ہوجائیں اور اس خطرناک وبا کو مذاق سمجھنے لگیں ۔
دوسری جانب حکومت سے بھی درخواست کرتے رہے کہ آگے کی آسانی کے لیے اب مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ سندھ میں پہلے ایک ہفتہ جو لاک ڈاؤن ہوا اس کے بعد یقین ہو چلا تھا کہ ہم بہت جلد اس وبا سے باہر نکل آئیں گے لیکن دوسرے ہفتہ سے حالات یکسر بدلنے لگے ۔ کئی علاقوں میں لاک ڈاؤن توڑتے ہوئے جمعہ کے اجتماعات بھی ہونے لگے اور کئی مارکیٹوں میں خریداری بھی عام دنوں سی ہی ہونے لگی جو انتہائی خطرناک منظر پیش کر رہے تھے اس کے بعد ہمیں اسی مقام پر کھڑا ہونا تھا جہاں اب کھڑے ہیں ۔اگر وفاق اور صوبے ایک ساتھ فیصلہ کرتے اور دو ہفتے کا مکمل اور سخت لاک ڈاؤن کردیتے ، کرفیو لگادیتے تو عوام جتنی سختی ، پریشانی برداشت کرتے وہ اسی مدت میں کرتے اور پھر مرحلہ وار کاروبار کھلنا شروع ہوجاتا تو مجھے یقین ہے اس وقت ہماری صورتحال ہرگز ہرگز وہ نہیں ہوتی جو ہوچکی۔
بہر حال کل شام سے ہی کچھ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ سندھ بالخصوص کراچی کے حالات بگڑ رہے ہیں ۔ کئی علاقوں کے نا م لیے جارہے تھے جہاں کورونا سے متاثرہ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ رہی تھی ، کہا جارہا تھا یہاں لاک ڈاؤن پر مکمل نہ عمل درآمد ہو رہا ہے نہ کرایا جارہا ہے ۔اس باعث آج کراچی کی 11 یونین کونسل کو رات گیارہ بجے سے سیل کیا جارہا ہے ۔ ڈپٹی کمشنر شرقی نے اس سلسلے میں حکم نامہ جاری کردیا ہے مگر اس حکم نامے میں یونین کونسل نمبر کے تحت بندش کے احکامات دیے گئے ہیں ۔ جب کہ ضروری یہ تھا کہ ان علاقوں کا ذکر کیا جاتا جنہیں بند کرنا مقصود ہے کیوں کہ یونین کونسل کی حد بندی 2015 میں تبدیل ہوچکی ہے اور حکم نامے میں جن یونین کونسل کو ضلع شرقی میں شامل کیا گیا ہے اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ کہ 2015 سے پہلے کی حد بندی والی یونین کونسل کی فہرست ہے ۔
ایک طویل لاک ڈاؤن، حکومت کی جانب سے راشن کی عدم فراہمی ، امداد کا نہ ملنا اور اس پر مرحلہ وار علاقوں کو سیل کرنا اب انتہائی خطرناک ہوگا ، اب لوگ اس کے متحمل نہیں ہوسکتے اب روز انہ کی بنیاد پر کما کر کھانے والا انتہائی پریشانی سے دوچار ہو جائے گا ۔ اب تمام اربابِ اختیار تمام فلاحی تنظیموں سے درخواست ہے کہ اب سیل کیے جانے والے علاقوں میں امدادی سرگرمیوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہوگی ۔
Facebook Comments
بہت حقیقی تحریر اور اسکی روشنی میں صرف اتنا کیا جائے کہ لوگوں کو یقتین دلایا جائے ثبوت دکھایا جائے کہ یہ وبا ہے اور پھیل رہی ہے۔