بورس جانسن کا کرونا۔۔قاضی شیراز احمد ایڈووکیٹ

میرے دادا ابو اور ان کے بڑے بھائی برٹش آرمی میں تھے۔دونوں بھائیوں نے جنگ عظیم دوم میں حصّہ لیا اور جاپان میں جنگ لڑی۔چونکہ ہم اکٹھے رہتے تھے لہذا ہم جب بچپن میں ان دونوں بھائیوں کے پاس بیٹھتے تو دونوں بھائی اکثر ہمیں اس زمانے کے واقعات سناتے تھے۔مجھے بچپن سے ہی تاریخی واقعات سننے کا بہت شوق تھا تو اکثر بڑے دادا جان سے تاریخی واقعات سنتا،اور اکثر ہمارے ہاں مہمانوں کا آنا جانا رہتا اور وہ لوگ بھی اکثر ان سے تاریخی واقعات کے متعلق پوچھتے تو پھر دیر تک ایک نشست ہوتی۔جس میں وہ جنگ عظیم دوم اور اس کے بعد کے حالات،تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے متعلق ایک بڑا تاریخی مواد ہمیں بتاتے۔اس میں جو بات حیران کن تھی ،وہ یہ تھی کہ دونوں بھائی ہمیشہ اس جنگ میں کمانڈ کرنے والے انگریز افسروں کی بہت تعریف کرتے۔دونوں بھائی ہمیشہ اپنے واقعات میں ان آفیسرز کی خوبیاں بیان کرتے۔اور عام سپاہیوں کے ساتھ بھی ان کے اچھے اخلاق کا ذکر کرتے،اور بتاتے تھے کہ شام کو جب ہم اپنی بارکوں میں لوٹتے تو وہ انگریز آفیسرز ہمارے پاس آتے اور ہمارا حال دریافت کرتے۔حوصلہ دیتے اور عزم کو بلند رکھنے کی تلقین کرتے۔اس دوران رمضان المبارک آگیا اور ہم نے اپنے انگریز کمانڈر سے نماز تراویح کی اجازت مانگی تو اس نے ہمیں اجازت دے دی۔اور نہ صرف اجازت دی بلکہ جب ہم نماز تراویح کے دوران بلند آواز میں ذکر کرتے تو وہ اس سے خوب محظوظ ہوتا۔ان واقعات نے میرے دل میں تاج برطانیہ کے لیے ایک عجیب محبت ڈال دی۔

لیکن بعد ازاں تاریخی کتابوں کے مطالعے اور مذہبی انتہا پسندوں کو سننے سے پتہ چلا کہ انگریز تو بہت ظالم اور انسان دشمن ہیں۔قتل عام کرتے ہیں۔۔اور مسلمانوں کو سخت غضب کا نشانہ بناتے ہیں،اور رہی سہی کسر B.A کی انگریزی کی کتاب میں سعادت حسن منٹو کے مضمونThe new constitution نے پوری کر دی۔اور انگریز قوم کے لیے ایک عجیب بغض دل میں جنم لینے لگا۔مگر بعد میں ایک ریسرچ اور وسیع مطالعے سے سوچ کا دائرہ وسیع ہوا۔۔اور اہلِ عرب جوکہ مسلمان بھی ہیں اور اسلام کے علمبردار بھی ان کا غیر ملکیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک دیکھا۔تو مجھے اس بات کا مکمل یقین ہوگیا کہ انسان دشمن تو ہر مذہب،ہر مسلک،ہر ریاست اور ہر معاشرے کا حصہ ہیں۔ہم نے ہر مشکل میں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کا ساتھ دیا۔مگر عرب حکمرانوں نے صرف پاکستانی حکمرانوں اور فوجی سپہ سالاروں کو عزت دی۔باقی مزدور اور عام عوام کے ساتھ ان کا سلوک ہمیشہ ناروا رہا۔ان کی نسبت امریکہ،برطانیہ،کینیڈا اور یورپی ممالک میں پاکستانیوں کو زیادہ حقوق حاصل ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج کل چونکہ عالمی وبا نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اور اکثر ممالک اس وقت اس وبا سے نبرد آزما ہونے کے لیے کمربستہ ہیں۔اس صوت حال میں برطانیہ خاص توجہ کا حامل ہے۔جس کے انسان دوست وزیراعظم بورس جانسن ہیں۔جوکہ اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں۔جب دیگر ممالک کی طرح اس وبا نے برطانیہ میں پنجے گاڑے تو اس وقت سے ہی بورس جانسن کی بھاگ دوڑ قابل دید تھی۔خادم برطانیہ نے باضابطہ خود تمام انتظامات سنبھالے،،اور طبی سہولیات پر نظر رکھی۔دن رات بھاگ دوڑ کی اور اپنی عوام کی طبی سہولیات کے بہتر انتظام کے لیے کوشاں نظر آئے۔اس کے علاوہ دیگر ملکی اور پارلیمانی ذمہ داریاں بھی پوری کرتے رہے۔اور آخرکار کرونا وائرس کا شکار ہوئے۔ڈاؤننگ سٹریٹ کے مطابق وہ سینٹ تھامس ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ہیں۔طبی ماہرین کے سخت اسرار پر انہوں نے خود کو علاج کے لیے پیش کیا۔ورنہ وہ اپنی صحت سے زیادہ عوام کے لیے فکر مند تھے۔اور طبی سہولیات اور فلاحی خدمات کے لیے مزید کام کرنا چاہتے تھے۔مجھے اس موقع پر اپنے قائد محمد علی جناح یاد آئے، جن کی شب و روز محنت ،عوامی خدمت اور ملکی ترقی کی فکر نے ان کو بستر ِمرگ پر لا چھوڑا۔پھر ان کے بعد ہمیں ایسی قیادت میسر نہ آئی۔مگر برطانوی عوام خوش قسمت ہیں جن کو بورس جانسن جیسا حکمران آج کے اس دور میں بھی میسر ہے،جو عوام کی خدمت اور ان کو وبا سے بچاتے بچاتے خود اس وبا کا شکار ہو گیا۔کسی مفکر نے خوب کہا کہ اگر سو کتوں پر ایک شیر کو کمانڈر بنا دیا جائے تو وہ سو کتے اس موت مریں گے جس موت ان کا وہ شیر کمانڈر مرے گا۔اور اگر سو شیروں پر ایک کتے کو کمانڈر بنا دیا جائے تو وہ سو شیر بھی اس موت مریں گے جس موت ان کا کمانڈر مرے گا۔ ہمارے مسلم حکمران اور خصوصا ً عرب فرمانروا تو کرفیو لگا کر اس طرح غائب ہیں جیسے کرونا کی وبا خالص ان کے لیے پھوٹی ہے۔کچھ دیگر ممالک میں دو چار مسلم حکمران ابھی عوام کی سہولت کے لیے کام کررہے ہیں مگر نہ ہونے کے برابر مگر ہم مسلمان چونکہ اب غلامی اور باج گزاری کے عادی ہو چکے ہیں، لہذا ہمیں ان باتوں سے کوئی اثر نہیں پڑتا۔سپین،اٹلی،جرمنی اور امریکہ کی عوام کی نسبت برطانوی عوام کے حوصلے اس وبا سے لڑنے کے لیے زیادہ بلند ہوں گے۔کیونکہ ان کا کمانڈر خود اس وقت اس موذی مرض سے نبرد آزما ہے۔بورس جانس کا کرونا ان کو مار نہیں سکے گا بلکہ ان کی عوام کے حوصلے بلند اور عزم کو پختہ کرے گا۔اور وہ بورس جانس کی طرح کرونا سے ڈریں گے نہیں بلکہ اس کا مقابلہ کریں گے۔بورس جانس کا کرونا ان سے شکست کھائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply