• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(اُنیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(اُنیسواں دن)۔۔گوتم حیات

اُن دنوں ہم لوگ (میں، صائمہ اور صدف) تقریباً ہر دوسرے ہفتے کتابیں خریدنے کے لیے اردو بازار جاتے تھے۔
شہر میں حالات تو سازگار نہیں تھے، جنرل مشرف کے آمرانہ دور کا اختتامی مرحلہ شروع ہو چکا تھا، وکلاء تحریک عروج پر تھی اور شہر میں بارہ مئی کا سورج بہت سے بےگناہوں کے خون کو شاہراہوں پر بہتا ہوا دیکھ کر ڈوب چکا تھا۔ یہ وہ ارزاں خون تھا جس کو شہر کے درندوں نے اپنی طاقت کا سکّہ جمانے کے لیے بہایا تھا اور بکثرت بہایا تھا، اُس دن اُنہیں روکنے والا کوئی نہیں تھا،دارالحکومت سے بھی اُن کو طاقت کا سفاکانہ کھیل کھیلنے کی مکمل اجازت جدید اسلحے کی صورت میں فراہم کر دی گئی تھی۔
تو یہی وہ زمانہ تھا جب ہم لوگ علم کا خزانہ خریدنے کے لیے اردو بازار کا رُخ کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کتابیں خریدتے خریدتے ہماری جیب خالی ہو جاتی اور ہم آہستگی سے ایک دوسرے سے کہتے کہ۔۔
“میرے پاس یہ کتاب خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، میں ان تین کتابوں میں سے اس وقت صرف دو ہی خرید سکتا ہوں، تم ایسا کرو کہ اس کتاب کے پیسے اپنے پاس سے دے دو، میں پھر تم کو بعد میں دے دوں گا”

اکثر اوقات کتابوں کی خریداری کے لیے اُدھار رقم ہم لوگ صدف سے لیتے تھے، کچھ ہی عرصے میں دکاندار بھی ہمارے چہروں سے شناسا ہو گئے۔ اب جب کبھی ہمارے پاس پیسے کم پڑ جاتے تو وہ بہت سی کتابیں ہمیں ادھار میں دے دیا کرتے تھے۔

کتابوں کی قیمتیں زیادہ ہوتی تھیں مگر اتنی بھی نہیں کہ ہم خرید نہ سکیں۔ اُن دنوں میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ یہ دکاندار حضرات اگر کتابیں سستی کر لیں تو کتنا بہتر ہو جائے گا اُن طالبعلموں کے لیے جو مہنگائی کی وجہ سے کتابیں خریدنے سے دور ہو گئے ہیں۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جب شہر میں ہر چیز ہی مہنگی مل رہی ہو تو پھر ہم کتابیں مہنگی ملنے کا رونا کیوں روئیں۔ علم تو ویسے بھی بہت محنت، لگن، جستجو اور کٹھن ریاضت سے حاصل ہوتا ہے، اس ریاضت کو حاصل کرنے کے لیے اگر ہمیں مہنگی کتابیں بھی خریدنی پڑیں تو اس میں گھاٹے کی کوئی بات نہیں ہے۔
یونیورسٹی میں دوست احباب اس بات کی اکثر شکایت کرتے ہوئے پائے جاتے کہ۔۔
“کتابیں بہت مہنگی ہو گئی ہیں، ہمارے اندر تو سکت نہیں خریدنے کی”، لیکن یہ وہی دوست تھے جو دن بھر کیفے ٹیریا سے مہنگی مہنگی چیزیں خرید کر کھا رہے ہوتے، کبھی سیر و تفریح کے لیے  ریسٹورنٹ یا پھر بازاروں میں جا کر جدید فیشن کے لباس خریدتے۔ ان کے منہ سے کتابیں مہنگی ہونے کے شکوے سُن کر  مجھے حیرت ہوتی، یہ وہ لوگ تھے جو اپنے مطلب کی ہر چیز باآسانی خرید  سکتے تھے مگر پانچ سو یا آٹھ سو کی کوئی کتاب خریدتے ہوئے انہیں مہنگائی کا بھوت ستانے لگتا۔

صائمہ جب تم  نے امرتا پریتم کی دلگداز اور افسردگی کے سمندر میں ڈوبی ہوئی نظم “اج اکھاں وارث شاہ نُو” کو کسی رسالے میں پڑھا تھا تو تم امرتا پریتم کی دیوانی ہو گئیں تھیں۔ اُن ہی دنوں ہم نے انٹرنیٹ پر اس نظم کو بارہا سنا۔ اس ایک نظم میں پورے ہندوستان کی تقسیم کا درد سمٹ آیا تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ہمیں شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اُس وقت کی سیاسی اشرافیہ نے پنجاب کی تقسیم میں کتنا بیش قیمت انسانی خون بہایا، لاکھوں کو بے گھر کیا، بچوں اور عورتوں کا تو کوئی پُرسانِ حال نہیں تھا۔ یہ سب کچھ ہمیں آزادی کے نام پر دیا گیا، ان واقعات کو سوچتے ہوئے بھی ہمارے بدن میں دہشت طاری ہونے لگتی ہے، ذرا سوچو یہ سب اُس وقت ہمارے ہی جیسے گوشت پوست سے بنے ہوئے انسانوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ فیض احمد فیض کی نظم
“یہ داغ داغ اجالا” بھی تو اُسی زمانے کی تلخیوں سے پُر ایک ایسی دستاویز ہے جس کو “جناح سرکار” نے پابند سلاسل کیا تھا، فیض کی اس نظم کو شائع کرنا جُرم ٹھرا تھا اور یہ جس اخبار میں شائع ہوئی اُسے سرکاری حکم نامے کے تحت پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔

امرتا پریتم کی “اج اکھاں وارث شاہ نُوں ” نظم کے طلسم میں گرفتار ہو کر صائمہ تم نے شہر بھر کی پرانی کتابوں کی دکانوں کو کھنگالنا شروع کر دیا تھا۔ کیونکہ ان کی کتابیں اردو بازار میں دستیاب نہیں تھیں، دکانداروں کا یہی کہنا ہوتا کہ آپ لوگ ان کو پرانی کتابوں کی کسی دکان میں جا کر تلاش کریں شاید کوئی دو چار کتابیں مل جائیں وہاں پر، اور ایک دن تم نے حسن اسکوائر کے قریب ایک ایسی دکان ڈھونڈ نکالی جہاں پر اتفاق سے دو چار نہیں بلکہ ساری کی ساری کتابیں امرتا پریتم کی موجود تھیں۔ اس دکان میں دوسرے معتبر ادیبوں کی کتابوں کے پرانے ایڈیشن بھی دستیاب تھے۔ اس دن تم نے وہاں سے امرتا پریتم کی بہت سی کتابیں خریدی اور کچھ کتابوں کو تم نے ان کے پاس اس شرط پر رکھوا لیا تھا کہ بہت جلد آکر یہ بھی لے جاؤ گی۔ اُس شام تم نے گھر آکر مجھے بڑے فخر سے بتایا تھا کہ “وہاں پر ہر کتاب موجود ہے لیکن دکاندار بہت چالاک ہے اور قیمتیں ڈبل کر رکھی ہیں اُس نے”، دو تین دن بعد تم مجھے بھی اس دکان پر لے کر گئیں، ہم لوگ یونیورسٹی سے
“گیارہ سی بس” میں بیٹھے تھے اور دس، پندرہ منٹ کے اندر حسن  سکوائر سے تھوڑا پہلے دکان کے سامنے ہی اتر گئے تھے۔ بظاہر باہر سے چھوٹی سی نظر آنے والی وہ دکان اندر سے کافی کشادہ تھی، جب میں تمہارے ساتھ دکان کے اندر گیا تو دل خوش ہو گیا وہ دکان واقعی میں بہت اچھی تھی۔ اس دکان سے ہم نے قرۃ العین حیدر، میڈم زاہدہ حنا، رابندر ناتھ ٹیگور، ساحر لدھیانوی، عصمت چغتائی اور کئی دوسرے ادیبوں کی کتابیں خریدی تھیں۔

امرتا پریتم کے بہت سے ناولز اور افسانے پڑھنے کے بعد تمہارے اندر یہ خواہش جاگی کہ ان ناولوں پر ٹی وی ڈرامے بننے چاہئیں، اس سلسلے میں تم نے کچھ ٹی وی پروڈیوسرز سے رابطے بھی کیے مگر کسی سے بھی کوئی خاص رسپانس نہیں ملا تمہیں، ہر ایک کا بس یہی کہنا تھا کہ ایسے ڈراموں کی مارکیٹ ہمارے ملک میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور پھر ان ناولوں پر ٹی وی ڈرامے بنانے کے لیے کثیر سرمایہ درکار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply