• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرونا وائرس اور ہماری سماجی و ریاستی ذمہ داریاں۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

کرونا وائرس اور ہماری سماجی و ریاستی ذمہ داریاں۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

انسان جب سے دنیا میں تشریف لایا ہے وبائیں، بلائیں، مسائل اس کے ساتھ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان نے کئی وبائوں پر قابو پایا اور کئی نئی وبائوں نے سر اٹھایا۔تحقیق و مطالعہ کرنے ولوں کے پاس تو اعداد و شمار ہیں، لیکن عام آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ طاعون نامی ایک وبا نے کئی صدیاں پہلے انسانوں کی آبادیاں نگل لی تھیں۔انسان نے اس قدر سائنسی ترقی کر لی ہے کہ بہ ظاہر کوئی بھی بیماری عالمی خطرہ نہیں بن سکتی۔ یہ انسان کا گمان تھا جوغلط ثابت ہو چکا ہے۔ کرونا سے پہلے سپینش فلو، انفلوئنزا، سارس،حتیٰ کہ پولیو بھی انسانی نسل کو متاثر کرتے آئے ہیں، مگر انسان نے ان کا علاج دریافت کیا اور اب شاید ہی کہیں کوئی پولیو کا کیس رپورٹ ہوتا ہو۔ وہ بھی ترقی پزیر ممالک میں۔
کرونا وائرس ہے کیا؟ اور یہ کہاں سے چلا؟ اس کے بارے دنیا جان چکی ہے۔ چمگاڈروں سے یہ وائرس انسانوں میں منتقل ہوا۔ ووہاں شہر اس کا مرکز بنا اور پھر چین کے اس ووہان شہر سے یہ وائرس اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے ماہرین سمیت دنیا کے تمام ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس وائرس سے بچائو کی ایک ہی تدبیر ہے، اور وہ ہے سماجی فاصلہ۔ ایک دوسرے سے میل جول میں کمی۔انتہائی ضروری حالات میں بھی اگر گھر سے باہر نکلنا ہو تو فیس ماسک کا استعمال، ہینڈ سینی ٹائزر،اور دیگر حفاظتی تدابیر۔ سماجی فاصلہ کم از کم چھ فٹ سے زائد ہونا چاہیے۔عالمی حالات و واقعات کو دیکھا جائے اور اعداد و شمار پر نظر کی جائے تو مستقبل کی تباہ کن تصویر ابھرتی ہے۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو۔ مگر ،انسان نے اگر اپنے سماجی رویوں میں تبدیلی نہ لائی، اپنی حکومتوں اور عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کو نظر انداز کیا تو لاشیں اٹھانے والابھی کوئی نہ ہوگا۔ میرے منہ میں خاک شاید پھر دفنانے کے بجائے ہنگامی حالات میں لاشیں جلا دی جائیں۔
دنیا میں کرونا وئرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہو رہا ہے۔

لوگ صحت یاب بھی ہو رہے ہیں ، یہ نہیں کہ جسے کرونا ہو گیا وہ لازمی اس وائرس سے مرے گا۔نہیں ایسا نہیں، بلکہ دنیا کو ہنگامی صورتحال در پیش ہے۔ اس کے اسباب دیگر بھی ہیں۔ ہسپتالوںمیں وینٹی لیٹرز کا نہ ہونا۔ کرونا وائرس کی کسی مستند ویکسین یا دوا کا نہ ہونا۔حکومتیں لوگوں کو گھروں میں بیٹھنے کا کہہ رہیں ہیں جبکہ لوگ کسی نہ کسی بہانے سے گھروں سے نکل رہے ہیں۔ یہ ساری دنیا میں تقریباًہو رہا جس کے باعث کئی یورپی ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سختی بھی کرنا پڑ رہی ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں کورونا وائرس کے مصدقہ متاثرین کی تعداد 16 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ اب تک اس سے 95 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اٹلی اب بھی اموات کی تعداد کے حوالے سے سب سے آگے ہے جہاں 18 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں اس وقت امریکہ میں سب سے زیادہ کورونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسز موجود ہیں۔ امریکی میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد تین لاکھ سے زائد ہے اور یہ تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے، جس کے باعث امریکی صدر جھنجھلاہٹ کا شکار بھی ہیں اور انھوں نے عالمی ادارہ صحت پر شدید تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ عالمی ادارہ صحت نے چین کے ساتھ جابنداری کا مظاہرہ کیا ہے۔

جس کے جواب میں عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس نے کہا ہے کہ ان کا ادارہ رنگ و نسل کی بنا پر کسی سے امتیاز نہیں برتتا۔عالمی ادارہ صحت نے بے شک چین کو اپنے ماہرین کی مدد دی، مگر اب صورتحال صرف چین یا امریکہ و اٹلی تک محدود نہیں رہی۔یورپ میں جس طرح کرونا کے مہیب سائے چھائے ہوئے ہیں اس سے مزید انسانی جانوں کے ضیاع کا خطرہ ہے جبکہ امریکہ میں بھی کرونا وائرس کے مزید نئے کیسز سامنے آنے اور نئی اموات کا خدشہ موجود ہے۔گزشتہ سے پیوستہ روز اطالوی وزیر اعظم نے تو یورپی یونین کے ٹوٹنے کے خدشے کا بھی اظہار کر دیا تھا۔
القصہ دنیا اب نفسیاتی و معاشی دبائو میں ہے۔ بعض ماہرین دوسری جنگ عظیم کے بعد اس وبا کو انسانی حیات کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔اٹلی، سپین ،فرانس اور امریکہ کی حکومتوں نے جب کرونا وائرس سے بچائو کے لیے حکمت عملی اور تدابیر کا اعلان کیا تو وہاں کے شہریوں کو اسے سنجیدہ نہیں لیا۔ شاید بلکہ یقیناً یہی وجہ تھی کہ وہاں انسانی آزادیوں پر پہرہ نہیں بٹھایا جا سکتا،جبکہ چین کا معاملہ دوسرا ہے۔ چین نے ووہان کا لاک ڈائون ریاستی طاقت سے کیا اور پھر ووہان میں وائرس سے متاثرین کی دیکھ بھال جنگی بنیادوں پر کی۔ برطانیہ سمیت یورپ و امریکہ میں اب سماجی لاک ڈائون ہے۔لوگوں کو بلا وجہ گھروں سے باہر نکلنے سے روک دیا گیا ہے۔

پاکستان میں بھی لاک ڈائون ہے لیکن یہاں صورتحال مختلف ہے۔اس وقت پاکستان میں 4687 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہیں جبکہ68 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔صحت یاب ہونے والوں کی تعداد البتہ اموات کے مقابلے میں حوصلہ افزا ہے،اور 727 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہر آتے لمحے کے ساتھ کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ لاک ڈائون کو لوگ سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں۔ دیہاڑی دار افراد، غریب طبقہ کے لیے حکومت نے امداد کا اعلان بھی کیا ہوا ہے اور امداد دینے کا عمل شروع بھی ہو چکا ہے مگر اس میں بے تدبیری ہے، کوئی پلاننگ نہیں جس کے باعث آنے والے دنوں میں ٹائیگر فورس امداد پروگرام کوئی نیا سکینڈل بن کر سامنے آئے گا۔
میری دانست میں پاکستان میں کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسزکے باعث پورے ملک میں لاک ڈاون میں نہ صرف توسیع کی جائے بلکہ اس مرحلے پر لاک ڈاون پر عمل در آمد کروانے کے لیے ریاست کو سختی بھی کرنی چاہیے۔اگرامریکہ، اٹلی، سپین، فرانس،برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک گھٹنے ٹیک چکے ہیں تو ہماری حیثیت کیا ہے؟نہ ہماری معیشت ان ممالک جیسی، نہ ہمارے سماجی رویے ان جیسے،نہ ہمارے ہاں صحت و تعلیم کی سہولیات ان ممالک جیسی۔ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم عالمی ادارہ صحت، محکمہ صحت پاکستان کی ہدایات پر عمل کریں اور گھروں میں بیٹھ جائیں۔یقیناً ہوٹلوں میں بے مقصد بیٹھنے والوں کے لیے گھر میں بیٹھ جانا بڑا تکلیف دہ ہے لیکن ،ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔گھر سے ضروری کام کے لیے نکلیں تو ان ہدایات پر عمل کریں جو محکمہ صحت کی طرف سے جاری کی گئی ہیں۔اپنا، اپنے پیاروں کا، اپنے خاندان، دوستوں ، ماں باپ، بیوی، بچوں کا خیال کریں، اپنے وطن کا خیال کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تین ہفتے ہمارے لیے بہت خطرناک ہیں۔اگرچہ امدادی سامان چین کی طرف سے آ رہا ہے لیکن ڈاکٹروں، نرسز،اور میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ دیگر افراد کو حفاظتی کٹس کی کمی کا سامنا ہے۔ ہمارے پاس کرونا وائرس کا ٹیسٹ کرنے والی کٹس کی بھی کمی ہے۔ اگر یومیہ ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت دوست ممالک اور عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے ہم بڑھا لیتے ہیں تو پاکستان میں کرونا کے کیسز کی تعداد ہمارے اندازوں سے زیادہ ہو گی۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ جس تناسب سے کیسز بڑھ رہے ہیں اس ماہ کے آخر تک ہمارے پاس ہسپتالوں میں جگہ نہیں رہے گی۔یہ باتسچہے، کیوںکہ صحت و تعلیم کبھی بھی ہماری اولین ترجیحات میں نہ تھیں۔ہمیں اپنے سماجی رویوں میں ذمہ داری لانا ہو گی جبکہ حکومت کو بھی اس امر پر گہرے تدبر کی ضرورت ہے کہ اگر لاک ڈائو میں توسیع نہ کی گئی تو اس کے تباہ کن اثرات سماجی حیات پر کیا مرتب ہوں گے۔ جذباتیت نہیں تدبر ،حکمت اور لاک ڈائون پر عمل در آمد کروانے کے لیے تھوڑی سی سختی بہت ضروری ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply