حقیقی وبا۔۔عمیر اقبال

زندگی کے کاروبار کو بند ہوئے آج ایک مہینے  سے اوپر ہو گیا تھا۔ لیکن عوام کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے پورے دن میں چند گھنٹوں کے لیے دکانیں کھولی جاتی تھیں۔ اس وقت کا رش دیکھ کر میرے ذہن میں بار بار یہی خیال آتا تھا کہ کیا یہ لوگ وبا سے آزاد ہیں؟ جو اس قدر کم فاصلے سے خرید و فروخت کر رہے ہیں؟ اسی تشویش کے ساتھ ہی میں دل ہی دل میں ان باہر نکلنے والے لوگوں کی صحت و سلامتی کے لیے دعا کرنے لگ جاتا تھا۔

تعلیمی ادارے تو کب کے بند ہو چکے تھے۔ جس کا مجھے کاروبار  بند ہونے سے زیادہ افسوس تھا۔ لیکن ایسے حالات میں سکول کے معصوم طلبا کو پڑھنے کے لیے بھیجنا ظلم کا آخری درجہ قرار پاتا۔ چند ایک  سکولوں نے حکومتی اعلان کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے والدین کو  سکول کھلے رکھنے کا نوٹس جاری کیا۔ لیکن بر وقت خبر ہو جانے پر ان تمام  سکولوں کے لائسنس کینسل کر دیے گئے۔ تعلیمی اداروں کا بند ہونا مجھے بھلا نہیں لگتا۔ لیکن تعلیم کے نام پر  قصائی خانوں اور کاروباری اداروں کی بندش مجھے کبھی اداس نہیں کرتی۔ اس لیے یہاں بھی موجودہ حالات کے پیش نظر میں نے شکر کا سانس لیا۔

سب کچھ تبدیل ہو رہا تھا۔ دنیا اپنے محور سے ہٹ گئی تھی۔ سعودی عرب جیسی مملکت نے انسانی جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے یہاں رہنے والے عرب و عجم کو بلا تخصیص مفت علاج معالجے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ کافر حکمرانوں نے ساری دنیا کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ جنگیں تھم گئی تھیں۔ لوگ دور رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے قریب آ رہے تھے۔ معافیاں مانگ رہے تھے۔

سب بدل رہا تھا۔۔ لیکن نہیں بدلا تو میں نہیں بدلا۔ میں ایک سیاسی جماعت کا کارکن تھا۔ اور اپنے لیڈر کا تو مرید تھا۔ میں آنکھ بند کر کے دن کو رات اور رات کو دن کہنے کا عادی تھا۔ میں نے اپنی پارٹی کا ماضی پڑھا تھا اور دیکھا بھی تھا۔ جو کہ نا قابل ِ بیان تھا۔ حال میرے سامنے تھا۔ اس کا بھی اظہار میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ ماضی اور حال کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی تصویر بھی میرے سامنے تھی۔ لیکن میں تھا کہ اپنی پارٹی کا جھنڈا اور نعرہ کلمہ کی طرح پڑھتا اور سناتا تھا۔

موجودہ حکومت ہو یا اپوزیشن پارٹیاں ہوں میری نظر میں ان کے برے کام تو برے ہی تھے لیکن اچھے کاموں میں بھی نقص نکالنے سے میں باز نہیں آتا تھا۔ کیوں کہ مجھے ڈر تھا کہ ایسا کرنے سے میں اپنے لیڈر کا ایک سچا اور عقیدت مند مرید نہیں کہلاؤں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لوگوں کے قلب دن بہ دن بدل رہے تھے۔ لیکن میں اپنی جگہ پر ہی کھڑا تھا۔ میں اور کب تک کھڑا رہوں گا مجھے نہیں معلوم تھا۔ لیکن اب مجھے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ میں بھی خود کو بدلنا چاہتا تھا۔ یہ وبا تو موذی تھی ہی لیکن وہ وبا جو انسان کی رگوں میں تعصب بن کر دوڑتی ہے اس سے میں بے زار ہو چکا تھا۔ میں اب خود کو بدلنا چاہتا تھا۔ اور اس کے لیے میں اپنے اندر باہر کا ازسر نو جائزہ لے رہا تھا۔

Facebook Comments

عمیر اقبال
حقیقت کا متلاشی، سیاحت میرا جنون ، فوٹوگرافی میرا مشغلہ ماڈلنگ میرا شوق،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply