تھر میں غذائی قلت اور حکومت کی ذمہ داریاں

تھر میں غذائی قلت اور حکومت کی ذمہ داریاں
طاہر یاسین طاہر
وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف صاحب کا بیان قومی اخبارات کے صفحہ اول پر جلی حروف میں شائع ہوا کہ جتنی ترقی آج کے دور میں ہو رہی اتنی پہلے کبھی نہ ہوئی تھی، بالکل اسی طرح جب بلاول بھٹو وفاقی حکومت پہ برستے ہیں تو ان کے دل میں غریبوں کا درد “ٹیسیں” مار رہا ہوتا ہے۔ جناب آصف علی زرداری بھی جب گویا ہوتے ہیں تو ہمیشہ “غریب اور جمہوریت “کی بات کرتے ہیں۔اسی طرح ایم کیو ایم،جماعت اسلامی،جمیعت کے” دائیں بائیں دھڑے”،خیر سب سیاسی جماعتوں کے دل میں بشمول پی ٹی آئی غریب کا درد ہے مگر ان میں سے کبھی کسی ایک جماعت نے بھی تھر میں غذائی قلت کے شکار بچوں کے حقوق کے لیے کسی ملین مارچ کا اعلان نہیں کیا نہ ہی فتویٰ ساز فیکٹریوں سے تھر کے بچوں کے حق میں کبھی کوئی فتویٰ تیار ہوا ہے۔ہمیں دکھ ہے کہ ہمارے عہد کے بچے غذائی قلت کا شکار ہو کر مر رہے ہیں اور غریب کے نام پر سیاست کرنے والے سیاست دانوں کے دستر خوانوں پر ڈھیروں کھانا بچ جاتا ہے۔
تھر کی تقدیر میں موت کے سوا لکھا کیا ہے؟کبھی خبریں آتی ہیں کہ تھر میں مور کسی بیماری کا شکار ہو کر مر رہے ۔، کبھی یہ دیکھنے اور پڑھنے میں آتا ہے کہ تھر کے صحراوں میں اونٹ مر رہے ہیں، پانی کی قلت تو ,تھر کے باشندوں کا ایک مستقل مسئلہ ہے،مگر غذا نہ مل سکنے کے باعث مرنے والوں کی تعداد میں بھی آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔یہ بچے ایک ایسے عہد میں جنم لے کر غذائی قلت کاشکار ہو رہے ہیں جسے ٹیکنالوجی کا زمانہ کہا جاتا ہے۔اگر چند مخیر حضرات ہی چاہیں تو تھر کے باسیوں کو کھانا،پانی ،جانوروں کے لیے چارہ اور نوکری تک مل سکتی ہے۔ مگر غریب کسی کی ترجیح نہیں ،نہ ہی غربت کا خاتمہ حکمران طبقے کی ترجیحات میں شامل ہے۔یہ کیسی ترقی ہے حکمران جس کا پرچار کرتے رہتے ہیں۔ نہ بجلی کی سہولت،نہ گیس،نہ پانی،نہ علاج معالجہ ،نہ تعلیم کی کوئی معیاری سہولت۔ جہاں مذکورہ سہولیات ہیں بھی وہاں برائے نام۔ توانائی بحران تو عشروں سے مقدر بنا ہوا ہے جس کے خاتمے کی فقط تاریخیں ہی دی جا رہی ہیں۔
ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں دو روز کے دوران غذائی قلت اور مختلف بیماریوں کے باعث مزید 9 شیرخوار بچے ہلاک ہوگئے۔ان ہلاکتوں کے بعد تھر میں رواں سال غذائی قلت اور بیماریوں کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد 476 تک پہنچ گئی۔تاہم مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے غیر تصدیق شدہ اعداد و شمار کے مطابق تھر میں رواں سال ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 606 ہے۔یاد رہے کہ بیمار بچوں کے والدین یہ شکوہ کرتےہیں کہ ان کے لیے صحت کی سہولیات نا کافی اور غیر معیاری ہیں، جبکہ محکمہ ہیلتھ کے ذمہ داران نومود بچوں کی اموات کی بڑی اور بنیادی وجہ کم عمری کی شادیاں قرار دے رہےہیں۔جبکہ یہ امر بھی افسوس ناک ہے کہ ضلع کے ہیلتھ حکام کراچی اور حیدر آباد کے ہسپتالوں میں منتقل کیے جانے والے 690 سے زائد بچوں کے زندہ یا ہلاک ہونے کے حوالے سے بےخبر ہیں۔تھر سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ونکاونی نے ضلع میں بچوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار سندھ حکومت کو ٹھہرایا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ضلع کے دور دراز دیہاتوں کے بیشتر ہیلتھ یونٹس اور ڈسپنسریز صوبائی حکومت کے دعوؤں کے باوجود تاحال بند ہیں۔رمیش کمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں کے دوران ضلع میں 2 ہزار سے زائد بچے ہلاک ہوچکے ہیں، لیکن متعلقہ حکام صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔
خیال رہے کہ تھر میں غذائی قلت اور مختلف بیماریوں کے باعث جنوری 2016کے ابتدائی 19دنوں میں 84بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ جبکہ جنوری تا اپریل2016میں تھرمیں غذائی قلت و مختلف بیماریوں کے باعث ہلاک ہونے بچوں کی تعداد162تھی۔ جنوری تا اپریل 2016 میں 245 بچوں کو انتہائی تشویشناک حالت میں مٹھی کے مختلف بنیادی صحت کے مراکز سے دیگر ہسپتالوں میں بھیجا گیاتھا۔جبکہ ان ہی 4 ماہ میں پانچ سال سے کم اور اس سے زائد عمر کے 39,795 بچوں کو ضلع کے 6 بنیادی صحت مراکز میں علاج معالجے کیلئے لایا گیا تھا اور ان میں 4,123 بچوں کو داخل جبکہ 245 بچوں کو تشویش ناک حالت میں دیگر ہسپتالوں میں بھیجا گیا۔
یہ اعداد و شمار مکمل نہیں ہیں مگر جو ہیں وہ انتہائی تشویش ناک اور ہماری اجتماعی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔بے شک ان ہلاکتوںکی اولین ذمہ دار سندھ حکومت اور اس کے بعد وفاقی حکومت ہے۔اس کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتیں اور سماجی و رفاہی تنظیمیں بھی، جو کسی ایسے علاقے میں اپنی پوری توانائی خرچ نہیں کرتی ہیں جہاں میڈیا کوریج ملنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔یہ امر حیرت افروز ہے کہ سر شام ہی ٹی وی چینلز پہ بیٹھنے والے دانش وروں کو بھی انسانی جانوں کے ضیاع کا کوئی رنج نہیں۔چاہیے تو یہ تھا کہ ٹی وی چینلز اس پہ میراتھن ٹرانسمیشن کرتے اور وزیر اعلیٰ سندھ،ضلع تھرپارکر کے ذمہ داران ،مقامی ایم این اے،اور سماجی و رفاہی تنظیموں کو متحرک کرنےمیں کردار ادا کرتے۔ مگر ایسا بوجہ ہو نہیں پا رہا ہے اور وقفے وقفے سے ایسی خبروں پہ ہی اکتفا کیا جاتا ہے کہ آج تھر میں اتنے بچے مر گئے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف صاحب، آصف علی زرداری صاحب اور ملک ریاض ایک “تکونی شکل “میں تھر کے بچوں کے لیے ذاتی حیثیت میں ہی کوئی اقدام اٹھائیں تو وہاں کے سماجی و غذائی مسائل ہفتوں میں کم ہو سکتے ہیں۔ مگر افسوس کہ تھر میں مرنے والے نا خواندہ،یا کم تعلیم یافتہ والدین کے بچے ہیں ،جن کے نزدیک مقامی وڈیرہ ہی ان کا نا خدا ہوتا ہے ۔اگر صرف صوبائی حکومت ہی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ تھر میں بے وجہ مرنے والوں کی تعداد کم نہ ہوسکے۔مخیر حضرات کو بھی اس طرف دیکھنا چاہیے اور سماجی تنظیموں کو بھی متحرک ہونا چاہیے۔تھر میں بلاشبہ اس وقت ایک بحرانی کیفیت ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply