افلاس زدہ عوام۔چینی چور مافیا۔۔۔قاضی شیرازاحمد ایڈووکیٹ

ارسطو اور افلاطون دونوں جمہوریت اور فلاحی ریاست کے سب سے بڑے داعی تھے۔انہوں نے ہمیشہ جمہوریت پر لکھا اور فلاحی ریاست کے لیے اصول بنائے۔جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی سیاسیات کے طالب علم بخوبی آگاہ ہیں کہ جہاں جمہوریت اور فلاحی ریاست کی بات ہوگی۔وہاں ارسطو اور افلاطون کا ذکر لازمی ہوگا۔مگر مغربی دانش ور،قلم کار اور سیاست دان بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ روئے زمین پر اگر کوئی امن کا دور تھا تو وہ خلفائے راشدین کا زمانہ تھا اور کوئی حقیقی فلاحی ریاست قائم ہوئی تو وہ ریاست مدینہ تھی۔جس کو عملی اور حقیقی فلاحی ریاست کہا جا سکتا ہے۔

آج بھی یورپ،کینیڈا،برطانیہ اور امریکہ جیسی ترقی یافتہ اور جدید طرز پر تعمیر ممالک و شہر بھی ریاست مدینہ میں نافذ شدہ اصولوں کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔جہاں چور کو چوری،ظالم کو ظلم،قاتل کو قتل،راشی کو رشوت،مہ خوار کو مہ خواری،زانی کو زنا پر سزائیں دی جاتی تھیں اور بلا تفریق دی جاتیں تھیں۔

یہی اس فلاحی ریاست کے امن و امان کا راز اور فلاحی ریاست ہونے کی دلیل تھی۔چونکہ انگریز مفکرین ، صحافی اور مورخ تنگ نظری میں ہم جیسے نہیں اس لیے وہ اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہیں کہ ہم بھی فلاحی ریاست بنانے کے لیے ریاست مدینہ والے اصولوں پر کار فرما ہیں۔

چونکہ ہم پیدائشی مسلمان ہیں اور بنِا محنت اور تحقیق ہمیں یہ نایاب و نادر اصولوں سے مزیّن دین ملا اس لیے ہم اس کے بنیادی اصولوں اور سنہری اسلوبوں کو چھوڑ کر جدت پسندوں اور مادر پدر آزاد معاشروں کی تقلید میں ہمیشہ سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔ہم ذاتی طور پر سہل پسندی کا شکار ہیں اور ذاتی خوبیوں سے محروم لہذا آسان اور سہل طریقہ یہی ہے کہ ہم ہر اس تہذیب کی تقلید کرے جو ڈراموں اور فلموں میں دکھائی جارہی ہے۔

دو قومی نظریے کی بنیاد پر جب ہمیں یہ وطن عزیز حاصل ہوا تو قائد اعظم کے بعد آنے والے حکمران طبقوں کے ذہن میں تو یہ بات تھی کہ پاکستان میں ریاست مدینہ والے تمام اصول و قانون نافذ ہوں گے مگر ان لوگوں کے دل اس عہد کی تکمیل کے لیے راضی نہ تھے۔بابائے قوم وہ واحد مخلص اور فلاحی ریاست کے حامی قائد تھے جن کی زندگی اور صحت نے ان کا ساتھ نہ دیا کہ وہ تاج برطانیہ کی غلامی سے آزاد کرائے گئے اس خطئہ ارض پر خالص ریاست مدینہ والے سنہری اصول نافذ کرتے۔وگرنہ ہر تقریب اور ہر تقریر میں وہ مرد حق یہ اعلان کرتا رہا کہ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کے لیے قانون اور اصول بنانے والا۔وہ تو چودہ سو سال پہلے پیغمبر اسلام بتا چکے ہیں۔

مگر بعد ازاں اقتدار کی جنگ نے ایسا طول پکڑا کہ آج ستر سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم جمہوریت،آمریت،صدارتی اور پارلیمانی طرز حکومت کی جنگ لڑرہے ہیں۔تقسیم اختیارت کے اصول کے باوجود صوبوں اور وفاق کے درمیان کی رسہ کشی اور اپنی اپنی حدود اور دائرہ کار کی سرد جنگ کی وجہ سے خاطر خواہ ترقی نہیں کر سکے۔اپنی عوام کو بنیادی سہولیات فراہم نہیں کر سکے۔صحت،تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی سہولتوں سے ہماری عوام محروم ہے۔بجائے بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ہم ان سے دو وقت کا نوالہ جو وہ روز شب کی ذاتی مشقت سے کماتے ہیں وہ بھی چھین رہے ہیں۔ملک کے اندر لا قانونیت کا راج ہے۔مافیا کی حکمرانی ہے۔جو من مرضی کے فیصلے کر رہے ہیں۔اگر کوئی مخلص شخص اس ظالمانہ نظام کو بہتر بنانے نکلتا ہے تو اس کو ناکام بنانے کے لیے یہ مافیا ایک جال بنتا ہے اور اس حکومت کو ناکام بنا دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسا ہی ایک قبیح فعل گزشتہ ایام میں رچایا گیا۔ملک میں آٹا اور چینی کا بحران پیدا کیا گیا اور آٹا اور چینی چور مافیا نے مل کر اربوں روپے کمائے۔ریاست سے بھی سبسڈی لی اور عارضی بحران پیدا کر کے آٹا اور چینی کو مہنگا کر کے بھی غریبوں کے خون پسینے کی کمائیوں پر ڈاکہ ڈالا گیا۔آٹا اور چینی اس ملک کے غریب عوام کی بنیادی غذائی ضروریات کو پورا کرتے ہیں مگر ان ظالموں نے اس ملک کے غریب کو لوٹ کر انسانیت کو شرمندہ کیا۔مگر میرے وطن کی سادہ لوح اور غریب عوام خاموش و بے بس نظر آئی۔اس ملک میں پہلے ہی غربت کا راج ہے اور چند مافیاز اس ملک کے وسائل پر قابض ہیں اس پر یہ آٹا اور چینی چوروں کا ڈاکہ افلاس ذدہ عوام کا غذائی اور معاشی قتل ہے۔صحت،تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات سے محروم عوام کے خون پسینے سے کمائی روزی روٹی کو چھیننے والے اس افلاس زدہ عوام کے مجرم ہیں ان چوروں کو قرار واقعی سزا مل پائے گی یا نہیں اب وقت کے حکمرانوں اور منصفوں کے ضمیر کی بات ہے۔اگر ایسا ہو گیا اور ان چوروں اور کرپٹ لوگوں کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا تو یہ وہ بنیادی اور دلیرانہ اقدام ہوگا جو میری ریاست کو ایک فلاحی ریاست بننے سے نہیں روک سکے گا۔
سزا کا حال سنائیں جزا کی بات کریں،
خدا ملا ہو جنہیں وہ خدا کی بات کریں،
ہر ایک دور کا مذہب نیا خدا لایا،
کریں تو ہم بھی مگر کس خدا کی بات کریں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply