• صفحہ اول
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • ہندوستانی مسلمان میڈیا میں پورٹل کے ذریعہ پیش قدمی کریں۔۔عبد الرحمن عالمگیر

ہندوستانی مسلمان میڈیا میں پورٹل کے ذریعہ پیش قدمی کریں۔۔عبد الرحمن عالمگیر

جب بھی مین  سٹریم میڈیا پر مسلمانوں سے جڑی خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے یا کسی بھی خبر کو مذہبی و مسلکی رخ  دیا  جاتا ہے تو مسلمانوں کے دانشورانہ حلقے سے کہا  جاتا ہے کہ ہمارا اپنا متحدہ میڈیا سسٹم ہو، اپنے چینل ہوں جس کے تحت خبروں کو غیر جانبدارانہ انداز میں پیش کیا جائے، مسلمانوں کی ملی و سیاسی رہنمائی کی جائے، ان کی فکری و علمی مستوی کو بلند کیا جائے اور ان کو قومی دھارے سے جوڑ کر رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اِس قسم کی گزارشات اُس وقت سے کی جارہی ہیں جب سے میڈیا کی سحر انگیزی آسمان چھونے لگی ہے پھر اِس گزارش میں 9/11 کے بعد کی اسلاموفوبیائی لہر کے وقت شدت آئی۔ اب جب ہندوستانی میڈیا پر ہندوتوادیوں کا قبضہ ہے تو پھر یہ صدائے بازگشت جابجا سنائی دے رہی ہے۔ لیکن افسوس کہ آج تک مسلمانوں کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا اور ایسا کوئی چینل وجود میں نہ آسکا۔ جب کہ اس مدعا کے حصول کے لیے ہزاروں کانفرنس، سینکڑوں سیمینار اور دسیوں قرار دادیں پیش کی  گئیں ، اب تو ماجرا یہ ہے کہ چینل تو کُجا ایک ڈھنگ کا اخبار نکالنے کی سکت نہیں رکھتے۔

آج کل اخبار کے نام پر مذہبی حلقوں سے نکلنے والے اکّا دکّا پرچے بھی اخبار کم اور میگزین زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر بالفرض مسلمانوں کا کوئی نیشنل چینل معرضِ وجود میں آ بھی گیا تو سوال ہے کہ اس پر کس مسلک کی حکمرانی ہوگی؟ شیعہ یا سنی، کون اس کا روح روا ں ہوگا؟ اس کا چیف جرنلسٹ دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی یا پھر اہل حدیث کا نمائندہ ہوگا؟ یا یہاں پر بھی سب کی دل جوئی کے لیے چار مصلے بچھائے جائیں گے؟ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے اندر سے مسلکی عفریت کافور نہیں ہو سکتی ۔ کچھ لوگ اس پریشانی کا حل یہ نکالتے ہیں کہ ایسے چینل کو صرف خبروں تک محدود رکھا جائے اس پر کسی قسم کا مذہبی پروگرام نشر نہ کیا جائے لیکن یہ بھی محال نظر آتا ہے کیوں کہ ہر انسان کا اپنا ایک نظریۂ فکر ہوتا ہے وہ ہر چیز کو اسی نظر سے دیکھتا ہے، اسی کے مطابق کسی چیز کو خاص اور کسی کو کم اہمیت دیتا ہے چنانچہ تمام معاملات کی طرح انسان ایک خبر کو بھی اسی نقطۂ نگاہ سے دیکھتا اور پرکھتا ہے اس لیے آپ دیکھتے ہوں گے کہ ایک ہی خبر کو مختلف صحافی الگ الگ انداز میں پیش کرتے ہیں اور پرائم ٹائم شو میں مختلف النوع رائے قائم کرتے ہیں جو کبھی کبھی ایک دوسرے سے باہم متضاد تو کبھی قدرے مماثل ہوتی  ہیں۔

بعینہ یہ معاملہ ہمارے مزعومہ متحدہ نیوز چینل پر بھی پیش آ سکتے ہیں، جس میں کسی مسلک کا اینکر کسی نظریہ پر زور دے گا تو کوئی تجزیہ کار کسی اور پر۔ مزید یہ کہ ہر مسلک کا متبع اپنے مذہبی جلسے و جلوس کو نمایاں کرنے اور اپنے حضرت کا  بڑکپن ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔ اسی طرح جتنا آسان مفت کے مشورہ دینا ہے اتنا آسان نیوز چینل قائم کرنا نہیں ہے۔ یہ کوئی دس بیس لاکھ کا کھیل نہیں ہے کہ چند مخیّر حضرات کی معاونت سے پایہ تکمیل کو پہنچ جائے بلکہ کروڑوں کا پروجیکٹ ہے پھر ہر ماہ لاکھوں کا صرفہ ہے۔ مزیں برآں مسئلہ یہ ہے کہ ہوسٹ کون کرے مرد یا عورت؟ اگر عورت ہوگی تو اس کا حجاب کس قدر ہوگا، صرف چہرہ کھولنے کی اجازت ہوگی یا سراپا پردہ نشیں؟ اگر مکمل با پردہ ہوگی تو اس کی آواز کا کیا حکم ہوگا؟ اور پھر ان چینلوں میں اشتہارات کی گنجائش ہوگی یا نہیں؟ اگر ہاں تو پھر اسی طرح کئی سوالات رونما ہوں گے اگر نہیں تو پھر چینل کا خرچ کیسے مکمل ہوگا؟ جب کہ اشتہارات خبر رساں اداروں کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ آخر کس کس چیز کا چندہ کریں گے؟ ؟

اسی لیے میرے خیال سے شیخ چلی کی طرح نیوز چینل کا ہوائی قلعہ تعمیر کرنے کی  بجائے چھوٹے پیمانے  سے آغاز کیا جائے۔ آج ویب پورٹل اور یو ٹیوب کا زمانہ ہے۔ ہر کوئی آزاد ہے۔ ہر ایک اپنا علیحدہ چینل شروع کر سکتا ہے۔ کیوں متحد متحد کی بلا وجہ رٹ لگائے ہوئے ہیں؟ کیوں دوسروں کے انتظار میں وقت ضائع کر رہے ہیں؟ اگر اس انتظار میں رہے  تو کچھ ہونے والا نہیں ہے الا کہ مسلمانوں کی کوئی حکومت متحدہ طور پر ان کی نمائندگی کرے جیسے قطر میں الجزیرہ کر رہا ہے۔ ممکن ہے جس کی اہمیت آپ کے نزدیک ہے اس کی اہمیت سامنے والے کے یہاں نہ ہو۔ جو کام آپ کر سکتے ہیں اگلا نہ کر سکتا ہو ،یا اس کے نزدیک اس کی اہمیت نہ ہو۔ اس لیے آپ تنہا یا اپنے ہم نواؤں کے ساتھ ابتداء کریں۔ چھوٹے چھوٹے آرٹیکل لکھیں۔ چھ سے سات منٹ کی ویڈیوز بنائی جائیں۔ طولانی سے گریز کیا جائے۔ پھر اس کی اعلیٰ  طرز پر ایڈیٹنگ کی جائے۔ اسے دیدہ زیب بنائیں تاکہ ناظرین کی توجہ آپ کی طرف کھینچی چلی آئے۔ اپنی  ویب سائٹ کو ترقی دینے کے لیے عوام سے رضاکارانہ روابط قائم کریں ہر نئے آرٹیکل اور ویڈیو کا  لنک انہیں ذاتی طور پر بھیجیں اور اس کی تشہیر کے لیے ان سے درخواست کریں کہ وہ اسے اپنے متعلقین تک پہنچائیں۔ اگر آپ کے میٹر (Matter) معیاری، معلومات افزا اور حقیقت پسندانہ ہوں گے تو اس کی مقبولیت بہت جلد ہوگی۔ اس میں نیوز چینل کی طرح اتنی مشکلات نہیں ہیں۔ اس طرح ہر جماعت اس خدمتِ خلق کا بآسانی موقع پا سکتی ہے۔ یہ طریقہ کم خرچ میں زود اثر ثابت ہوگا۔ قومی سطح پر اس کی کئی مثبت مثالیں ہیں جن کے روزانہ لاکھوں ویزیٹرز ہیں۔ جن سے عوام تو عوام بڑی بڑی نیوز ایجنسیاں استفادہ کرتی ہیں۔ ان پورٹلوں کی اثر انگیزی دیکھتے ہوئے تمام چینلوں نے اپنی اپنی ایپلیکیشن تیار کروائیں ، یوٹیوب پر پکڑ مضبوط کی ، سوشل سائٹ پر پہچان بنائی اور اپنی پَل پَل کی کارکردگی کو ان روابط سے جوڑ دیا۔

مسلم جماعتیں بھی اسی راہ پر چل کر بہتر شروعات کر سکتی ہیں۔ پہلے اچھی رپورٹنگ سے اپنی پہچان بنائیں۔ لحظہ بہ لحظہ یہ خار راستے طے ہوتے  جائیں گے۔ پھر ایک دن آئے گا کہ جب یہ میڈیا کے اعلی  درجات  پر متمکن ہوں گے  اور اس وقت صرف ایک چینل ہی نہیں پوری نیوز سروس سنبھالنے کی سکت ہوگی۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ انسان جب پہلا قدم اٹھاتا ہے تو اس کو کچھ مشکلات پیش آتی ہیں لیکن ساتھ ہی اس کے سامنے کئی راستے کھل جاتے ہیں پھر جوں جوں وہ قدم بڑھاتا جاتا ہے منزل آسان اور قریب ہوتی جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نہ کر تقدیر کا شکوہ مقدر آزمائے جا
ملے گی خود بخود منزل قدم آگے بڑھائے جا!

Facebook Comments

عبد الرحمن عالمگیر کلکتوی
ایک ادنی سا طالب علم جو تجربہ کار لوگوں کے درمیان رہ کر کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply