تحریک انصاف میں ایک بابر اعوان؟۔۔آصف محمود

چینی بحران کی لپیٹ میں تحریک انصاف کا اخلاقی وجود لڑکھڑاتے دیکھا تو خیال آیا تحریک انصاف میں ایک بابر اعوان بھی تو ہیں۔ پھر ایک اور خیال دیوار دل سے لپٹ گیا کہ قافلہ انقلاب میں کیا یہ ایک بابر اعوان ہی ہیں جو اپنے اخلاقی وجود کے بارے میں حساس تھے؟ باقی کیا دھرم شالے کے ڈول ہیں جہاں کنواں دیکھا ، پیٹ بھرنے اتر گئے۔ سیاست میں اخلاقی وجود کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور جس طرح کی سیاست کا دعوی تحریک انصاف کو ہے اس میں میں سے اخلاقی وجود منہا کر دیا جائے تو کچھ باقی بچتا ہی نہیں۔یہ اخلاقی برتری ہی تھی جس نے تحریک انصاف کو ممتاز کیا اور پھر سرخرو۔بیچ میں بہت سے مقامات آہ و فغاں آئے اور ہرمقام پر عارفین سخن نے عذر گناہ کے دیوان لکھ لکھ کر اہل اقتدار کی تیرگی کو تابانی قرار دیا لیکن جو بحران اس وقت تحریک انصاف کے اخلاقی وجود کو درپیش ہے ، غیر معمولی ہے۔اس کیفیت میں اخلاقی وجود کے باب میں بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ جن پر انگلیاں اٹھی ہیں وہ لب خوش رنگ نئی وزارت کے نئے قلمدانوں سے سیراب ہور ہے ہیں۔ بابر اعوان پر بھی ایک الزام لگا تھا۔ قانون سے واجبی سی آگہی رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ وہ ایک کمزور اور نامعتبر الزام تھا۔وزارت پر فائز رہتے ہوئے دلیل کی پوری قوت کے ساتھ اس الزام کا ابطال کیا جا سکتا تھا۔ لیکن بابر اعوان نے منصب پر اپنے اخلاقی وجود کو ترجیح دی ، وزارت سے استعفی دیا اور عدالت کے کٹہرے میں جا کر کھڑے ہو گئے۔ نہ التوا کی درخواست دی نہ تاخیری حربے استعمال کیے ، عدالت میں باقاعدگی سے پیش ہوتے رہے اور اپنی بے گناہی ثابت کر کے سرخرو ہو کر کٹہرے سے باہر آئے۔ جس روذ وہ کٹہرے میں جا کر کھڑے ہوئے وہ ایک فرد واحد تھے ، بے گناہی کا پروانہ تھام کر جب کٹہرے سے باہر آئے تو یہ فرد واحد نہیں یہ تحریک انصاف تھی جو سرخرو ہوئی۔بابر اعوان نے بتا دیا کہ تحریک انصاف اپنے اخلاقی وجود کے بارے میں کتنی حساسیت رکھتی ہے۔ گویا ایک اصول طے ہو گیا کہ آپ الزامات کی زد میں آتے ہیں اور آپ کے خلاف کارروائی شروع ہوتی ہے تو آپ مستعفی ہو جائیں اور پارٹی کے اخلاقی وجود کے لیے کرونا وائرس بننے کی بجائے اپنا مقدمہ ثابت کریں ۔ افسوس یہ ا صول پامال کر دیا گیا۔کاش تازہ بحران کی زد میں آنے والوں میں بھی اتنی اخلاقی جرات ہوتی کہ وہ نئی قلمدان تھامنے کی بجائے عمران خان سے کہتے کہ میں استعفی دے رہا ہوں ، بے گناہی ثابت کر سکا تو واپس آ جائوں گا۔ گرد اور دھول ہے۔ جس جماعت نے معاشرے میں حقیقی انصاف متعارف کرانا تھا اس پر فقرے کسے جا رہے ہیں ، اخلاقی وجود مٹھی سے گرتی ریت کی طرح تحلیل ہو رہا ہے۔ایک وزیر دوسرے کو الزام دے رہا ہے کہ ایکسپورٹ کا فیصلہ تم نے کیا اور وہ آگے سے جواب دے رہا ہے کہ بھائی جان آپ بھول گئے اس میٹنگ میں آپ بھی تھے۔درست کہ وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا تھا لیکن کوئی تو ہو گا جس کی ماہرانہ رائے کی بنیاد پر وفاقی کابینہ کسی نتیجے پر پہنچی ہو گی۔ کابینہ کی بے شک اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن کابینہ کا ہر آدمی ہر شعبے کو ماہر نہیں ہوتا۔ کابینہ فیصلہ ضرور کرتی ہے لیکن فیصلے پر پہنچنے کے لیے کسی متعلقہ ماہر کی رائے پر اعتبار کر تی ہے۔ وہ ماہر کون تھا؟ وہ فرد کہاں ہے؟ کوئی تو سامنے آئے۔کوئی تو ذمہ داری قبول کرے۔ کوئی تو کہے میں اس کا ذمہ دار تھا اور میں بابر اعوان کی طرح استعفی دے رہا ہوں۔ میں قانون کے کٹہرے میں جا رہا ہوں۔ وہاں سے سرخرو ہو کر لوٹوں گا۔ بی آ ر ٹی سے لے کر چینی بحران تک ، عمران خان کے دوستوں ، مشیروں اور وزیروں نے عمران خان سے دشمنی کے سوا کیا کیا ہے؟ اس قافلہ انقلاب میں سبھی چاند ماری کے تیر انداز ہیں یا کوئی اپنے نظریات سے مخلص بھی ہے۔ ان وزیران با تدبیر کا ، کام کیا صرف یہی ہے کہ روز ایک تازہ مصیبت عمران خان کی دہلیز پر چھوڑ کر جانا ہے۔ جس روز یہ کوئی کارنامہ انجام نہیں دے پاتے اس روز کوئی ایسا بیان دے ڈالتے ہیں کہ وزیر اعظم کو سکون کا سانس لینا نصیب نہ ہو۔ پھر خیال آتا ہے ان نابغوں سے بھی کیا گلہ؟ یہ عمران خان کا اپنا ہی انتخاب ہے۔ بی آر ٹی کی رپورٹ آتی ہے چھپا لی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کا اپنا وزیر اعلی خود اپنے حکم سے یہ رپورٹ تیار کرواتا ہے اور پھر اس رپورٹ کو زمین کھا جاتی ہے۔ کیا پورے کے پی کے کی حکومت میں ایک بھی ایسا آدمی نہیں جو اپنے اخلاقی وجود کا خیال کرتا ۔ جو سامنے آتا اور کہتا کہ بی آر ٹی آج عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے طعنہ بن گئی ہے تو اس کا ذمہ دار میں ہوں۔میں یہ ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ کوئی ایک آدمی ایسا نہیں جو بتا سکے اس تباہی کا ذمہ دار کوئی وزیر تھا ، مشیر تھا یا وزیر اعلی خود تھا؟کوئی تو بولا ہوتا، کوئی تو سامنے آیا ہوتا؟ سبھی کاویری کے کنارے نصب مجسمے کی طرح خاموش کیوں ہیں؟بابر اعوان کی کابینہ میں واپسی تحریک انصاف کا اعزاز تھا ، اس کا ایک وزیر الزام پر مستعفی ہوا ، عدالت سے سرخرو ہو کر اسی ذمہ داری پر فائز ہو رہا تھا۔ہمارے سیاسی کلچر میں یہ معمولی بات نہیں۔ افسوس یہ اعزاز بھی دھندلا گیا ہے کیونکہ اخلاقی وجود سے بے نیازی کے ماحول میں دھول اڑائی جا رہی ہے ۔گرد بیٹھے گی تو تحریک انصاف کا بانکپن دھندلا چکا ہو گا۔ دھرم شالے کے ڈول اس وقت کسی تازہ کنویں کی تلاش میں ہوں گے۔ دیوار دل سے لپٹا یہ خیال تسلی دیتا ہے کہ تحریک انصاف میں صرف جہانگیر ترین اور خسرو بختیار ہی نہیں بابر اعوان بھی ہیں۔لیکن خانہ دل ہی سے سوال اٹھتا ہے کیا بابر اعوان ’’ بھی‘‘ ہیں یا بابر اعوان ’’ہی‘‘ ہیں؟خیبر سے ملتان تک کیا کوئی اور بھی ہے جو استعفی دے اور اپنے اخلاقی وجود کے تحفظ کے لیے کٹہرے میں جا کھڑا ہو؟ قافلہ انقلاب میں یہ ایک بابر اعوان ہی ہیں جو اپنے اخلاقی وجود کے بارے میں حساس تھے؟ باقی کیا دھرم شالے کے ڈول ہیں جہاں کنواں دیکھا ، پیٹ بھرنے اتر گئے؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply