آصف زرداری کےدورِ صدارت پہ ایک نظر

آصف زرداری کا دورِ صدارت
اُسامہ بن نسیم
18 اکتوبر 2007 کو بے نظیر بھٹو شہید 9 سال بعد جلا وطنی کاٹ کر وطن واپس لوٹیں ۔ جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ کراچی پر ہزاروں کارکن آپ کے منتظر تھے ، کچھ لوگوں کا خیال تھا محترمہ کسی کالی کار میں بیٹھ کر بلاول ہاؤس جائیں گی ، لیکن محترمہ آمریت کے اُس دور میں جمہوریت اور بے خوفی کی علامت بن کر ایک کھلے ٹرک پر چڑھ کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دیتے ہوئے بلاول ہاؤس کی طرف بڑھنے لگیں ۔ جمہوریت کے دشمن آپ کے قافلے میں گھس چکے تھے ، آپ کو مارنے کا ارادہ لیے وہ خود کو اُڑا چکے تھے ، دیکھتے ہی دیکھتے ناقابلِ فراموش خوشی ناقابلِ برداشت غم میں تبدیل ہوچکی تھی ، ڈیڑھ سو کے قریب کارکن شہید اور ساڑھے چار سو زخمی تھے ۔ کچھ لوگ ہڈیاں اور گوشت کے ٹکڑے سمیٹ رہے تھے اور بی بی اپنا حوصلہ جمع کررہی تھیں ۔ پھر واپس بچوں کے پاس جاکر مُلاقات کی جو آخری ملاقات تھی ۔
آپ بیک وقت شدت پسندوں اور اقتدار پرست آمر کی نفرتوں کا مرکز تھیں ۔ پھر بھی ڈر تھا نہ خوف ،آپ نے 27 اکتوبر 2007 کو لیاقت باغ میں ایک عوامی سمندر سے خطاب کیا ، آپ نے آمریت کو للکارا ، عوامی قوت کے ذریعے عوامی حقوق دلانے کی بات کی ، اگرچہ جنرل مشرف کے دورِ صدارت میں کافی وقت باقی تھا مگر آنے والے انتخابات میں اُن کی پارٹی کی کامیابی کے امکانات نہایت کم تھے ۔ بی بی کی لینڈنگ کے بعد زباں بندی ، دھماکوں ، شدت پسندی اور جدت پسندی سے تنگ عوام کو روٹی ، کپڑا اور مکان ہی اپنے لیے بہتر محسوس ہونے لگا تھا ، گویا وزارتِ عظمیٰ کی کرسی محترمہ کی منتظر تھی ۔ سیاست کے بے رحم کھلاڑیوں نے محترمہ کا کام تمام کرنے کی ٹھانی اور آپ کو کارکنوں کے بیچ چھپے ایک دشمن نے گولیوں سے اُڑا دیا ۔ اُسی رات تمام ثبوت پانی میں بہا کر الزام طالبان پر ڈال دیا گیا اور اُن کی جانب سے پُراسرار طور پر ذمہ داری قبول کرنے اور پھر نے کرنے کے بیانات بھی آتے رہے ۔
پی پی پی کے کارکنوں کی خوشیاں کسی کی خودغرضی کی نظر ہوگئی تھیں ، انتخابات قریب تھے ، سیاسی خلا پیدا ہوچکا تھا ایسے میں آصف علی زرداری میدان میں آئے اور آپ نے بی بی کے قتل کا ذمہ دار” ق لیگ ” کو ٹھہرایا اور اُسے قاتل لیگ کہا۔ آپ نے پارٹی کو متحد کیا ، اور بی بی کے جانے کے بعد پیدا شدہ سیاسی خلاءپُر کرنے کی کوشش شروع کردی ۔
2008 کو ہونے والے عام انتخابات میں 119 نشستیں لے کر پی پی پہلے نمبر پر آئی ، اور ن لیگ ، جے یو آئی ، متحدہ ، اے این پی کی مدد سے اتحادی حکومت قائم کی جس کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی تھے ۔ اقتدار میں آکر سب سے پہلے جنرل مشرف کا میڈیا ٹرائل شروع کردیا گیا اور اُنھیں “باعزت” جانے پر مجبور کردیا گیا ، آئے روز چارج شیٹ کی دھمکیوں اور اپنے خلاف مضبوط سیاسی اتحاد نے جنرل مشرف کو مجبور کردیا کہ وہ اولمپکس کے کھیل میں شرکت کے بجائے سیاست کے کھلاڑیوں کے آگے گھٹنے ٹیک کر مستعفی ہوجائیں۔ چنانچہ استعفیٰ دیا اور آپ کو باعزت گارڈ آف آنر دے کر باہر جانے دیا گیا ، یہ وہ موڑ تھا جہاں زرداری صاحب نے فوج سے دوستی کی بنیاد رکھی ، جو مختلف ہچکولے کھاتی رہی مگر آخر تک برقرار رہی ۔ صدر کے لیے نواز شریف نے بلوچستانی باشندے کی تجویز پیش کی اور زرداری صاحب یہ کہہ کر مُکر گئے کہ بننا ہی ہوتا تو وزیرِ اعظم بنتا ، تاہم پُرانے حریف ، نئے حلیف کی نیتوں کو بھاپنتے ہوئے اُنھوں نے خود کرسی پر آنے کا فیصلہ کیا اور با آسانی صدر منتخب ہوگئے ۔
محترمہ نے معزول چیف جسٹس کے گھر پر پاکستان کا جھنڈا لہرا کر اُنھیں بحال کرنے کا اعلان کیا تھا مگر آصف زرداری نے صدر بنتے ہی اس معاملے میں لیت و لعل سے کام لینا شروع کردیا ، اور یہی معاملات ن لیگ کے واپس حریف بننے کا سبب بنے اور پھر میاں نواز شریف عوامی سمندر لے کر لاہور سے نکلے اور چیف جسٹس کو بحال کروا کر دم لیا ۔ زرداری صاحب کے دورِ حکومت کوبیشتر عوام کرپشن کے”;گولڈن پیریڈ”سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ صدر زرداری کی مفاہمت والی پالیسی کو ہی اُن کی کامیابی گردانتے ہیں ، ذیل میں صدر زرداری کے پنج سالہ دورِ حکومت کی صورتِ حال کا مختصر جائزہ لیا جارہا ہے ،
1۔ لوڈشیڈنگ اور بجلی کی پیداوار:
مشرف سے اقتدار کی منتقلی کے ساتھ ساتھ بجلی کی کمی بھی ورثے میں مِلی تاہم بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں ۔ نئے ڈیموں کی عدم تعمیر ، سولر پاور پر عدم انحصار اور ونڈ انرجی پر کام نہ ہونے کے باعث لوڈشیڈنگ دن بدن پڑھتی چلی گئی ، اور شارٹ فال 5 سے 7 ہزار میگاواٹ تک جاپہنچا ۔ اِس دوران لوڈشیڈنگ میں کمی کے لیے حکومت نے چھوٹے چھوٹے پن بجلی کے منصوبوں ، رینٹل پاور پلانٹس ، ہفتہ اتوار کی چھٹی اور وقت ایک گھنٹہ آگے کرنے جیسے “گُر”; اپنانے تاہم یہ گُر اُونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہوئے ۔
2۔ وزیرستان آپریشن :
وزیرستان میں ٹارگٹڈ آپریشنز جاری رہے ، تاہم اپوزیشن اور حلیف جماعتوں کی مخالفت کے باعث ضربِ عضب کی طرز کا کوئی منظم آپریشن نہیں ہوسکا۔ اور کالعدم تحریکِ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بھی سنجیدہ کوششیں نہ ہوسکیں ، تاہم وزیرستان آپریشن کے معاملے پر آرمی کو فری ہینڈ دیا گیا اور آرمی کے ساتھ کسی بڑی چپقلش سے گریز کیا گیا ۔ وزیرستان اور کالعدم طالبان کے معاملے میں حکومت”;ڈھنگ ٹپاؤ”; پالیسی پر گامزن رہی ۔
3۔ آرمی سے تعلقات:
پیپلز پارٹی آمروں کے زیرِ عتاب رہی ،تاہم ایک آمر سے حکومت چھیننے کے بعد پیپلز پارٹی نے فوج کے متعلق اپنی پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لیا اور آرمی سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ ساتھ ہی صدر زرداری نے سویلین اداروں کا وقار بڑھانے کے لیے “سول اسٹیبلشمنٹ”کو مضبوط کیا۔ آپ نے جمہوریت کو اتنا مضبوط کیا کہ بدترین سیاسی مخالف بھی آمریت کے مقابلے میں ٹوٹی پھوٹی جمہوریت کو ترجیح دینے لگے۔ آپ نے آرمی چیف کو ایکسٹینشن دے کر سول ملٹری تعلقات کا تسلسل برقرار رکھا۔ مجموعی طور پر آپ کے آرمی کے ساتھ تعلقات اچھے رہے۔
4۔ پارلیمنٹ اور صوبوں کی مضبوطی:
آپ نے ایک آمر کے بنائے ہوئے قانون 2-بی 58کا خاتمہ کیا ، جس قانون کے تحت کوئی بھی صدر اپنی مرضی سے اسمبلی توڑ سکتا ہے، صدر زردای نے اسمبلی کو “تحلیل” ہونےکے خوف سے آزادکیا۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ پر سیاسی جماعتوں کا اعتماد بڑھا۔ صدر کے بیشتر اختیارات پارلیمنٹ کے سپرد کیے گئے ، اور صوبوں کو اختیارات دے کر بہتر کام کرنے کا موقع دیا گیا ، جس کی وجہ سے صوبوں اور مرکز میں اعتماد بڑھا،اور سرحد کو عوامی خواہشات کے مطابق “خیبر پختون خوا”کا نام دیا گیا۔ مجموعی طور پر اس ضمن میں آپ کا کردار مثبت رہا۔
5۔ ڈی وزراءِ اعظم :
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جب صدر مضبوط ہوا ، تو نظام”صدارتی”ٹھہرا، جب وہی صدر یا کوئی اور طاقتور شخص وزیرِ اعظم بنا نظام”;پارلیمانی “; کہلایا۔ صدر زرداری اپنے اختیارات پارلیمنٹ کے سپرد کرنے کے باوجود منطق العنان بنے رہے ۔ اور وزیرِ اعظم کی حیثیت بیشتر امور میں “ڈمی ” کی سی رہی ۔ صدر کے سوس بینکوں میں دولت سے متعلق خط نہ لکھنے پر وزیرِ اعظم کو عدالتی رخصت ملی اور یوں ایک وزیرِ اعظم ، صدر کے اثاثوں کی حفاظت کرتے ہوئے “شہید”ہوا جبکہ دوسرا بھی “شہید “ہوتے ہوتے بچ گیا۔
6۔ کرپشن:
جب آپ وزیرِ پرائیویٹائزیشن تھے تب سے آپ مسٹر ٹن پرسنٹ مشہور تھے ، لیکن 11 سال پابندِ سلاسل رہنے کے باوجود آپ پر کچھ بھی “ثابت” نہ ہوسکا۔ تاہم آپ کے دورِ صدارت میں کرپشن کے بے شمار واقعات زبان زدِ عام ہوئے۔ او جی ڈی سی ایل اور اوگرا جیسے اداروں میں میٹرک پاس لوگوں کو سربراہ لگایا گیا ۔ رینٹل پاور پراجیکٹ کے نام پر قومی خزانے کو اربوں کا چونا لگایا گیا۔ اور کرپشن سے اوپر کرپشن یہ کہ راجہ رینٹل کے نام سے مشہور ہونے والے وزیرِ بجلی کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے وزیرِ اعظم کی کُرسی پر بٹھایا گیا۔ ریلوے اور پی آئی اے سو سال پیچھے چلی گئیں ، جبکہ سڑکوں کی حالت بھی ہڑپہ کے کھنڈرات جیسی ہوگئی ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بنا کر غریبوں کو معمولی وظیفہ دینے کی بات کی گئی تاہم یہ رقم بھی کہیں حقداروں تک پہنچی اور کہیں جیالوں تک ۔ آپ کرپشن کے بے شمار واقعات کی وجہ سے عوام میں چور کے لقب سے پکارے جاتے رہے۔
7وفاق اور صدر زرداری:
صدر وفاق کی علامت ہوتا ہے ، صدر چاروں صوبوں اور تمام پارٹیوں کے درمیان زنجیر کا کام کرتا ہے ، صدر کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہ رکھتا ہواور اگر وہ سیاسی ہو بھی تو اُس کا اظہار نہ کرے ۔۔ آپ صدر کے ساتھ ساتھ پی پی پی کے چئیرمین بھی رہے اور پارٹی کی مجلسِ عاملہ کے اجلاس صدارتی محل میں منعقد کرکے خود کو متنازعہ اور جانبدار باور کرواتے رہے ۔
8۔ مذہبی جماعتوں سے تعلقات:
ملک کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت جے یو آئی آپ کے ساتھ تھی ، آپ نے لال مسجد کی تعمیرِ نو کروائی ، مذہبی جماعتوں کے سامنے کوئی غیر ضروری رکاوٹ نہیں ڈالی ، سُنی اتحاد کونسل کو بھی اپنا ہمنوا بنایا اور مدارس کے خلاف بھی کسی بڑی مہم جوئی سے اجتناب کیا ۔ جبکہ کالعدم سپاہِ صحابہ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ دیرینہ دوستی میں برقرار رہی ۔ حکومت کی مذہبی جماعتوں سے چپقلش رحمان ملک کی پریس کانفرنسوں تک محدود تھی ۔ مجموعی طور پر (نواز شریف دور کے مقابلے میں ) مذہبی جماعتیں صدر زرداری سے خوش تھیں ۔
9۔ بی بی سے لاتعلقی:
بی بی شہید نے اپنی وصیت میں خود کو کچھ ہونے پر جن ذمہ داروں کا ذکر کیا اُن میں جنرل مشرف بھی تھے ۔ اور پھر بی بی کی شہادت کے بعد ثبوت بھی مٹادئیے گئے ، لیکن صدر زرداری نے جنرل مشرف کو پکڑنے کے بجائے گارڈ آف آنردے کر رخصت کیا۔ وہ پکڑنا چاہتے ہی نہیں تھے ،لیکن اگر چاہتے بھی تو شاید پکڑ نہ پاتے۔ ق لیگ کو آپ نے قاتل لیگ کہا لیکن پھر وقت بدلا اور اُسی قاتل لیگ کا سینئر لیڈر مفاہمت کا علمبردار بن کر پی پی حکومت کا نائب وزیرِ اعظم بنا۔ ان واقعات نے کارکنوں میں مایوسی پھیلائی اور بی بی کی شہادت کی تحقیقات مفاہمت کی پالیسی تلے دفن ہوگئیں ۔ اپنے پانچ سالہ دورِ صدارت میں پیپلز پارٹی نے قاتلوں کو پکڑنے میں وہ سنجیدگی نہیں دکھائی جس کی بی بی شہید متقاضی تھیں۔
10۔ مسئلہِ کشمیر اور آزادکشمیر:
پی پی نے اپنے دور میں بھارت کے ساتھ ڈپلومیسی اور ڈائیلاگ کی کوششیں کیں ، تاہم بھارت کی بدنیتی اور اپنوں کی غفلت نے کوئی نتائج نہ آنے دیئے۔ آپ کے دورِ صدارت میں مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی ۔ آزادکشمیر کی سیاسی تاریخ میں صدر زرداری کا دور بدترین دور تھا۔ اپنی ہمشیرہ کو کشمیر امور کا نگران بنا کر آزادکشمیر کے ریاستی تشخص کا جنازہ نکال دیا گیا تھا۔ فریال تالپور کو ذمہ داری سونپ کر صدر زرداری خود کنارےہوگئے تھے ، اور آزادکشمیر کے اقتدار پرست وزیرِ اعظم و وزراء کو معمولی بات پر نوڈیرو طلب کرنا محترمہ فریال کا معمول تھا۔ کشمیری عوام کے دلوں میں پیپلز پارٹی کی مقامی اور مرکزی قیادت کے خلاف نفرت کے جذبات موجود تھے ، جن کا اظہار اُنھوں نے حالیہ ریاستی انتخابات میں کیا ۔ صدر زرداری پر زلزلہ متاثرین کے 40 ارب روپے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ڈالنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے ، اس اقدام کی وجہ سے زلزلہ میں تباہ شدہ 750 سکول آج تک مکمل نہیں ہوسکے ۔
11۔ خارجہ پالیسی:
چین کے ساتھ پہلے سے موجود تعلقات کومزید بہتر بنایا گیا، اور سی پیک پر بات چیت کا آغاز ہوا۔ سعودیہ اور ایران دونوں کے ساتھ برادرانہ تعلقات استوار کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ بھارت کے ساتھ بھی مذکرات اور افہام و تفہیم سے معاملات حل کرنے پر بات ہوئی ۔ امریکہ کے سابقہ تعلقات برقرار رہے ، تاہم امریکہ کی جانب سے ڈو مور اور داخلی خودمختاری کی خلاف ورزی پر پاکستان امریکہ سے دور ہوتا چلا گیا۔
12۔ امن و امان :
امن و امان کے لحاظ سے صدر زرداری کا دور بالکل بھی اچھا نہ تھا۔ آئے روز دھماکوں کے نتیجے میں شہریوں اور فوجی اہلکاروں کی شہادتوں نے حکومت کی کارکردگی پر کئی سوالات کھڑے کردئیے تھے ۔ شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کے معاملے میں قومی جماعتوں کے اختلافِ رائے نے حکومت کومشکل میں ڈال دیا تھا ، یہی وجہ ہے کہ نہ دہشتگردوں کے خلاف کوئی منظم آپریشن ہوسکا اور نہ ہی دہشتگردوں کو سزائیں مل سکیں۔
13۔ سیاسی مفاہمت:
اگرزرداری صاحب کو مفاہمت کی سیاست کا بادشاہ کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا، آپ نے پرانے سیاسی حریف میاں نواز شریف کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ، یہ اتحاد تو دیرپا ثابت نہ ہوسکا لیکن آپ کی سیاسی بصیرت کے باعث ن لیگ اپوزیشن میں رہ کر بھی کوئی بڑی مشکل نہ کھڑی کرسکی۔ مخلوط حکومت میں سیاسی جماعتوں کو جوڑے رکھنا اور اُن کے مطالبات کو تسلیم کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے لیکن زرداری صاحب نے اس مشکل کام کو احسن طریقے سے سرانجام دیا۔ اور مولانا فضل الرحمان کو ساتھ ملا کر وہ سیاست کھیلی کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایک حکومت نے اقتدار کے 5 سال پورے کیے۔
اگرچہ صدر زرداری کا دور بے شمار خامیوں سے بھرا تھا ، لیکن آپ نے جمہوریت کو تسلسل دینے کے لیے بھرپور کوششیں کیں ۔ آپ نے سیاست کو تضاد ، تصادم اور مخالفت برائے مخالفت کے نظریے سے کرنے کے بجائے باہمی تعاون اور مفاہمت کا نظریہ دیا ۔ ایک زرداری سب پہ بھاری کا نعرہ لگانے سے روکتے ہوئے ، پاکستان کھپے اور جمہوریت بہترین انتقام ہے کا نعرہ دیا۔ صدر زرداری کے دور میں جہاں بے شمار قابلِ اعتراض چیزیں ہیں ،وہیں اہلِ سیاست کے سیکھنے کے لیے بے شمار قیمتی موتی بھی ہیں ۔

Facebook Comments

اُسامہ بن نسیم
اُسامہ بن نسیم کیانی ۔ میں سول انجینئرنگ کا طالبِعلم ہوں، میرا تعلق آزادکشمیر سے ہیں ، کئی مقامی اخبارات اور ویب سائٹس کے لیے کالم نگاری کے علاوہ فیس بک پر مضامین بھی لکھتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply