کیا کرونا واقعی ایک سازش ہے؟۔۔داؤد ظفر ندیم

کرونا کے بارے میں اتنے زیادہ سازشی تصورات دنیا میں لائے جا چکے ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے اور یہ سازشی تصورات صرف پاکستانی یا برصغیر کے مسلمانوں کے روایتی یہودی سازش والے نہیں ہیں بلکہ یورپ اور امریکہ کے بعض لوگوں نے چین اور  روس کے بعض حلقوں نے امریکہ کے بارے میں شبہات کا اظہار کیا ہے، بہت سی غلط یا صحیح معلومات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ماضی کے ناولوں، کہانیوں اور فلموں کا حوالہ دیا گیا ہے اس کے ساتھ ماضی کی بعض علمی اور بعض تحقیقی  کاموں کا بھی حوالہ دے کر کرونا کے بارے میں اپنی تھیوری کو بیان کیا گیا ہے۔

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ سازشی نظریات من گھڑت ہوتے ہیں حالانکہ بات کوئی بھی ہو وہ من گھڑت ہی ہوتی ہے ،یہ بعد میں اس کی مقبولیت اور اس کو تسلیم کرنے کا رحجان اور اس کے دلائل سے اس کے معتبر اور باوثوق ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

جب مارکیٹ میں بہت سے من گھڑت نظریات موجود ہیں تو سیلف آئیسولیشن کی حالت میں انسان کرونا کے بارے میں تفکر کرتا ہے تو اسے بہت سی باتوں کا انکشاف ہوتا ہے ،سوچا آپ سے بھی شیئر کرلوں تاہم اس کو کوئی مستند درجہ نہ دیا جائے صرف گپ شپ ہی سمجھا جائے۔

یونیورسٹی کے زمانے میں بہت سی  ایسی کتابیں اور رسالے پڑھے تھے، جن میں بتایا گیا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کے سنجیدہ لوگ اس بات پر متفکر ہیں ، کہ دنیا کی آبادی، ماحولیات کے مسائل، مذہبی شدت پسندی اور بے لگام آزادی دنیا کو کس انجام تک لے کر جائیں گی۔ اور ان کا حل کیا ہے۔ آبادی کے لئے منصوبہ بندی کی کوششیں بہت سے ملکوں میں ناکام رہیں اور بہت سے سماجی سائنسدانوں نے کچھ ملکوں کو انسانیت کا بوجھ قرار دے دیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو  بوجھ اتارا جاتا ہے، چنانچہ اس غیر مفید آبادی کو جو انسانیت کے لئے کوئی خدمت بھی انجام نہیں دے رہی اس سے نجات کا فیصلہ ضروری ہے۔۔ کئی کتابوں میں یہ ذکر کیا گیا کہ ترقی یافتہ ممالک کے سائنس دانوں نے طاعون، چیچک اور اس طرح کی  مہلک بیماریوں کا خاتمہ کرکے ان لوگوں کی قدرتی منصوبہ بندی روک دی ہے اور اب ان کی آبادی کے اضافے کی رفتار نے پوری انسانیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے یہ اب سائنس دانوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس آبادی کو کنٹرول کرنے کا حل سوچیں۔

ماحولیات کا مسئلہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے پیدا ہوئی  بے محابہ صنعتی ترقی اور زہریلی گیسوں کے اخراج نے کرہ ارض کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔اوزون کی تہہ مسلسل ٹوٹ رہی ہے اور پوری دنیا کا ماحول خطرے میں پڑگیا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس ماحول کو بچایا جائے، وگرنہ انسانیت کا مستقبل خطرے میں پڑجائے گا، اس کے لئے بعض مفکریں کی تجویز تھی کہ صنعتی سرگرمیوں کو کچھ عرصے کے لئے موقوف کر دیا جائے ماحول دشمن گیسوں والی  صلاحیتوں کا خاتمہ کیا جائے مگر یہ عملاً ہو نہیں سکتا تھا۔

تیسرا مسئلہ مذہبی شدت پسندی کا سامنے آیا تھا۔ ہر مذہب کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا تھا بڑے بڑے اجتماعات، اور پروگراموں کو کنٹرول کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا ،آخر اس مذہبی سرگرمیوں کے جن کو کیسے بوتل میں ڈالا جائے ،ان بڑےا جتماعات سے شدت پسندی میں اضافہ ہوتا ہے ،ان کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔

بے لگام آزادی نے انسانی نظم و ضبط کا بیڑہ غرق کر رکھا تھا، آخر اس کو کیسے کنٹرول کیا جائے ؟انسان کو ایک نظم و ضبط والی زندگی کا کیسے پابند بنایا جائے؟ کوئی اخلاقی یا مذہبی سبق اس سلسلے میں کامیاب نہیں تھا۔۔اسلحے کی ڈور اور طاقت کا مظاہرہ بھی بہت بڑا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے صحت اور تعلیم کی ترجیحات بہت پیچھے جا چکی تھیں انسانوں کو اس طرف راغب کرنا کہ اسلحے سے زیادہ تعلیم اور صحت کی ضرورت ہے ناممکن دکھائی دے رہا تھا

دنیا میں بہت سے سماجی مفکریں اور سائنسدانوں نے ان امور کے بارے میں اپنی پریشانیوں کا اظہار کیا تھا لیبارٹریوں میں بائیوکیمک ہتھیار بھی بنائے جارہے تھے اور ایسے ہتھیاروں کا بھی سوچا جا رہا تھا جو صرف انسانوں کو نشانہ بنائیں، ماحول اور وسائل محفوظ رہیں

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ قدرت نے بقائے اصلاح کے تحت انسانی آبادی کی منصوبہ بندی کا ایک پروگرام بنایا تھا جس میں صرف طاقت ور جین رکھنے والے انسان ہی محفوظ رہتے تھے مگر سائنس اور طب نے بہت سے کمزور اور بیمار لوگوں کو بچایا ہے ان کی عمر میں اضافہ کیا ہے اور انسانوں کی عمر میں اضافہ کیا ہے۔

ایسے میں بہت سی فلموں میں ایسے سائنسدانوں کو ولن کے طور پر دکھایا گیا ہے جو دنیا کو اپنی دانست میں محفوظ بنانے کے لئے کوئی غلط نظریہ بنا کر اپنی ایجاد سے دنیا میں تھرتھری مچا دیتے ہیں اور یہ اپنے طور پر ہی اپنے ملکوں سے بھی چوری چھپے ایسی ایجاد کا تجربہ کرنے اور اسے دنیا میں پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کیا یہ ممکن نہیں ہے کرونا کے وائرس کی یہ شکل کسی ایسے ہی سائنسی تجربے کا نتیجہ ہو اور اس سے وہی نتائج لینے کی کوشش ہو جس کو اس سائنس دان نے انسانیت کی بقا کے لئے مفید سمجھا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب پتہ نہیں کہ یہ کسی سائنس دان نے وارننگ دی ہے یا قدرت کی طرف سے ایک پیغام ملا ہے مگر روحانیت کی دنیا بھی بتاتی ہے کہ قدرت نے زندگی کو بچانے کا اپنا طریقہ وضع کر رکھا ہے۔انسانیت کا تسلسل اور کرہ ارض کا تحفظ قدرت کے منصوبے میں بہت اہمیت رکھتا ہے اس کے لئے چاہے ایک محدود عرصے کے لئے انسانوں کو مصیبت اور آزمائش میں ہی  کیوں نا مبتلا  کرنا پڑے۔ اب کرونا کے بعد ہمیں ان تمام مسائل کا ازسر نو جائزہ لینا پڑے گا اور ان کا سنجیدگی سے کوئی حل نکالنا ہوگا وگرنہ کوئی اس سے بھی زیادہ زہریلا وائرس اس بھی زیادہ تیزی سے انسانوں کی تعداد کو زیادہ محدود کر سکتا ہے۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply