وقعت۔۔ مختار پارس

کیا مانگوں؟ کسی چیز کی کوئی وقعت ہی نہیں رہی۔ ایک طرف قادرِ مطلق کی عطاؤں کا لامحیط سلسلہء رضا و صلا اور دوسری طرف حیاتِ شیریں میں خوابیدہ ہستی کےلیے امکانِ سزا و قضا۔ انسان جو مانگتا ہے وہ اس کو عطا ہو جاتا ہے اور پھر جب اس کو وہ سب حاصل ہو جاتا ہے تو پھر اسے ایک دن احساس ہوتا ہے کہ اس کی خواہش کتنی چھوٹی اور کتنی ناپائیدار تھی۔ وہ پھر اپنے مانگنے اور رب کے دینے پر ہنستا ہے۔ پھر اسے جو رب نے عطا کیا ہوتا ہے، اس کو لٹانے میں لگ جاتا ہے۔ وہ پھر اپنے ارد گرد مانگنے والا ڈھونڈتا ہے اور دیتے دیتے ہنستا ہے اور ہنستے ہنستے دیتا ہے۔ وہ اوپر دیکھ کر زیرِلب مسکراتا ہے اور کہتا ہےکہ نہ راز تو نے مجھے بتایا تھا اور نہ میں نے انہیں بتایا ہے۔ یہ خود ہی ایک دن ان سب پر آشکار ہو گا کہ کسی چیز کی اس جہان میں کوئی وقعت نہیں؛جو میں نے مانگ لیا اور جو نہ مانگ سکا،سب مٹی ہے۔

پھر جب تک دامن اور دامان بے وقعت چیزوں سے بھرا رہتا ہے، رات کو نیند نہیں آتی۔ پیسہ، کھانا اور ٹھکانہ ایک شخص کتنا اکٹھا کر سکتا ہے۔ اس رزق کی وقعت بس اتنی ہے کہ کسی کی ضرورت پوری ہو جاۓ۔ پیٹ بھر کر کھانے کے بعد جو لقمہ ہاتھ میں ہوتا ہے، اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ مال و زر کی وقعت بس اس وقت تک ہے جب تک در پر دستک ہوتی رہتی ہے۔ یہ بھی عطاۓ رب ہے کہ کوئی محتاج، کوئی بھوکا، کوئی مسافر آپ کے دروازے پر پہنچ جاۓ؛ ورنہ رقم ہاتھ میں پکڑ کر ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کے کمرے تجوریوں کی طرح فرش سے چھت تک زر و جواہر سے بھرے ہوتے ہیں مگر نہ خود کچھ کھا سکتے ہیں نہ کسی کو کچھ دے سکتے ہیں؛ کبھی توفیق نہیں ہوتی اور کبھی طاقت نہیں ہوتی۔ اورایسے بھی قصے دیکھے ہیں کہ جب اجل آئی تو شہر کی گلیوں میں پیسہ کوڑے کرکٹ کی طرح بکھرا پڑا رہا اور نہ پھینکنے والے رہے اور نہ ان کو کوئی اٹھانے والا رہا۔

ربِ کائنات نے ہمیں کس آزمائش میں ڈال دیا ہے، نہ خوابوں کی کوئی حقیقت ہے اور نہ حقیقت کی کوئی وقعت۔ لوگ ‘ کن’ کے امر کے تحت زندہ ہوتے ہیں اور ‘اليهِ راجعون’کے طریق پر چلے جاتے ہیں۔ نہ ان کے آنے سے پہلے ان کی خبر ہوتی ہے اور نہ ان کے جانے کے بعد کوئی فرق پڑتا ہے۔ جسم بھسم ہو جاتا ہے اور روح اڑ جاتی ہے۔ جسم دورانِ حیات سواۓ چیخنے چلانے کے کچھ نہیں کر سکتا اور روح بعد از حیات سواۓ بھٹکنے اور خوابوں کی دیواروں سے سر ٹکرانے کے کچھ نہیں کر سکتی۔ زندگی میں اگر کچھ سمجھ آ گیا تو وہ صرف یہ ہے کہ زندگی سراب ہے۔ موت کو اگر سمجھ لیا تو وہ صرف یہ ہے کہ موت بھی صرف ایک لمحاتی واہمہ ہے اور کچھ نہیں۔ ساری زندگی نیکیاں سمیٹ لیں تو ان کا اِس دنیا میں کچھ فائدہ نہیں۔ اگلی دنیا کی فکر میں فکرِ معاش چھوڑا، لب و رخسار چھوڑے، جام و سبو کو توڑا، اپنی انا کو پاش پاش کیا؛ طے کیا کہ نہ میکدے کی کوئی وقعت ہے اور نہ ہمیں کسی کی آنکھوں میں ڈوبنا ہے۔نہ جفا کا حساب کر سکے اور نہ وفا کی تعریف کر سکے۔ مولا! تیری رضا کے دل آویز صحرامیں ابھی اور کتنا چلنا ہے؟

رنگ و نور کا تماشا اک دھوکا ہے اور خوشبو بھی صرف حسیات کا ارتعاش اور التباس ہے اور کچھ نہیں۔ موسم کی ادائیں بھی اسے اچھی لگتی ہیں جو خود خوبصورت ہوتا ہے۔ نہ حسن نے سدا آباد رہنا ہے اور نہ موسم نے ہمیشہ اٹھکیلیاں کرنی ہیں۔ بستیاں آباد ہوتی ہیں اور کچھ دیر صبا اور سرسر میں کھیلتی رہتی ہیں۔ پھر کوئی طوفانِ نوح آتا ہے اور بچے کھچے انسانوں کو نئی امید کی ناؤ پر بٹھا کرباقی سب فنا کر دیتا ہے۔ یا پھر فرشتے پہاڑ اٹھا کر طائف جیسی وادیوں میں بسنے والی گستاخ قوموں کو کچل دیتے ہیں۔ ہزاروں سال کا سفر پلک جھپکنے میں گزر جاتا ہے اور پھر نئی قومیں، نۓ لوگ، نۓ پھاوڑے لے کرپرانے پہاڑوں کو کھود کر ان میں سے نوادرات اور ممیاں نکال کر عجائب گھروں میں سجا دیتے ہیں۔ دریافت کرنے والے اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ان بوسیدہ لاشوں اور پرانے سکوں کی ان کے اپنے دور میں کوئی وقعت نہیں تھی۔ تاریخ کے مردہ کواڑوں میں جھانک کر خود کو فتح یاب سمجھنے والوں کو کون بتاۓ کہ ایک کوہِ گراں، دلِ ناداں پر کسی بھی وقت گرا چاہتا ہے؛ ایک سیلِ رواں کسی بھی وقت ہم سب کی انا کو ڈبو سکتا ہے۔

سوال یہ کہ کیا ہم سب کو ہماری نادانی نے مارا ہے؟ عقل و دانش کے وہ پیکرِ عظیم وسلیم جنہوں نے تہذیب و تمدن کے اوراق پر اپنے افکارِ پریشاں سے زندگی کے نشان تحریر کیے، وہ کیا ہوۓ؟ سقراط کے سچ کا انسان نے کیا فائدہ اٹھایا۔ ارشیمیدس نے انکشاف کیا کہ سورج دنیا کے گرد نہیں بلکہ دنیا سورج کے گرد گھوم رہی ہے تو انسانیت کونسے نۓ معراج کو پہنچ گئی۔سٹیفن ہاکنگ کے معجزاتی ادراک کو جاننے کے بعد بھی ہم یہی سمجھتے ہیں کہ جو چاند اور سورج ہمارے سامنے ہیں، یہی ہمارا آسمان ہے۔ انسان نے ان خلاؤں کو عبور ہی نہیں کیا جن کو اس انسان کےلیے بنایا گیا تھا۔آسمانوں تک عمارتیں کھڑی کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان نے عرش کو تسخیر کر لیا ہے۔

سوچنے والے اور لکھنے والے وجہِ زندگی پر انسان کو قائل نہ کر سکے۔ ول ڈیورانٹ نے اتنی کتابیں لکھ ماریں تو کیا کسی کی سمجھ میں بات آ گئی۔ جتنے بھی دانشور گزرے ہیں، ان میں سے کسی نے صرف اپنے محلے پہ دھاک بٹھائی تھی اور کسی نے صرف اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ نہ سوفوکلیز کے المیہ نے عالمی انسانی نفسیات کو بہتر کیا اور نہ تھامس ھارڈی کے حزنیہ نے کربِ جاں کو سنوارا۔ نہ آدم سمتھ کام آیا نہ کارل مارکس؛ نہ دوستووسکی کو کسی نے سمجھا اور نہ ٹیگور کو۔ غالب کی شگفتہ بیانی، ابوالکلام کا اسلوب اور یوسفی کی طربیہ تحریروں نے ہمارے انسانی معیار کو سواۓ چند قہقہوں کے کیا دیا۔ جتنے بھی فاتح ہو گزرے ہیں، انکا سواۓ نام کے اور تاریخ میں کیا باقی ہے۔ تیمور ترکمانستان سے نہ نکلتا تو کیا ہوتا اور ھنیبال ہاتھیوں کو لے کر پہاڑوں پر چڑھ گیا تھا تو کونسا کمال ہو گیا۔ سائرس بابل و نینوا کو ہرا کر کونسا لافانی ہو گیا اور جولئیس سیزر نے کونسا بروٹس کے ہاتھ روک لیے تھے۔ جہالت کو نہ عالم و فاضل ختم کر سکے اور نہ فاتحین اور ناصحین۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کوئی جھوٹ بول کر حکمران بن جاۓ تو ملک کی کیا وقعت اور کوئی حکمران بن کر جھوٹ بولتا رہے تو حکم اور عہدے کی کیا وقعت۔نارسائی اگر نصیب میں ہے تو پھر تخلیقِ انسان کی کیا وقعت۔ کسی کی چشمِ نم دکھائی نہ دی تو دیدہء وا کی کیا وقعت۔ آفتِ ارض و سماوی میں صبر نہ آۓ تو ایمان کی کیا وقعت۔ حالتِ زار و فگار میں رحمت کی امید نہ ہو تو سجدوں کی کیا وقعت۔ انسان کو انسانوں میں خدا نہ نظر آۓ تو انسان کی کیا وقعت۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply