غربت کا وائرس۔۔ابرارخٹک

ابرار آج معمول کی سیر پہ نکلا توموسم بہت خوشگوار تھا۔رات کی طوفانی بارش اور آندھی نے فضااور ماحول پر گہرے اثرات چھوڑے   تھے۔کئی دنوں کے بعد سورج نکلنے سے گویا زمین کے بھی چودہ طبق روشن ہوگئے ہوں جیسے۔جرنیلی سڑک پار کی تو دو بچیاں دیوار کی نکڑ پر کھڑی ،جیسےمیرا ہی انتظار کررہی تھیں۔’’کاکا یہ گٹھڑیاں ہمارے سروں پر رکھ  دیں ۔‘‘ان کی عمریں بالترتیب ۹ اور ۱۲ سال کے درمیان تھیں۔میں نے گٹھڑیاں اٹھانے میں مدد کی اور آگے نکلنے لگا۔ایک بچی نے دوسری کو آواز دی ’’ دوبارہ پھر بھی آئیں گے ،کچھ شاخیں ابھی پڑی ہیں۔‘‘ذہن میں خیال آیا ،یہ بچیاں کتنی ناسمجھ ہیں،ساری دنیا گھروں تک محدود ہوگئی ہے اور یہ شاخیں ڈھونڈنے نکلی ہیں۔ تھوڑا آگے پہنچا تو ایک ادھیڑ عمر عورت ان بچیوں کے انتظار میں کھڑی تھی ،ان کی عمر۵۰،۴۵سال کے درمیان تھی۔ان کے سامنے بھی ایک چھوٹے درخت کا تنا پڑاہوا تھا ، معلو م ہوا بھاری ہے ،اور اس کے اٹھانے ، لے کر جانے میں انھیں بھی مشکل پیش آرہی ہے۔جسم کوایندھن نہ ملے تو زندگی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے،خطرہ ،خطرہ ہوتا ہے ،چاہے ایندھن کے نہ ہونے کا ہو یا وائرس کا۔بیک وقت دونوں سے بچناہرایک کے لیے ممکن نہیں۔ویسے بھی پیٹ کے ایندھن کے لیے جسم کے ایندھن کو جلانا ہی پڑتا ہے۔آگے بڑھا تو سرسبز و شاداب کھیتیاں ،حسن کی دلآویزیوں سے پھٹ رہی تھیں ۔اب کی  بارنوخیز کلیوں کی چٹک دیکھی نہ مہک ،رنگ و خوشبوکی ساری متاع ’’کرونا‘‘لوٹ کرلے گئی ہے۔بقول فیض :
نہ گُل کھِلے ہیں،نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
ایسی بہار زندگی میں پہلی بار دیکھنے کا اتفاق ہورہا ہے ،جس کا حسن اور ولولہ انگیز یاں جوبن پہ ہوں مگر ’’تماشائی ‘‘ کوئی نہیں ؟داد اورقدر بھی کیا شئے ہے، نہ ملے تو ہیرابھی اپنی وقعت کھودیتا ہے۔چمن میں آتش گل کے نکھار کا موسم آیا ہے مگر مخلوق خدا گھروں کے قفس میں قید،وائے حسرتا۔

بہار کی رعنائیوں اور حسن کی دلآیزیوں سے محبت،حسرت ویاس کا مکالمہ کرکے رخصت ہوا تو گاؤ ں کے چوک پر قسمت گل کاکاکو دیکھا جو’’چماری‘‘کا پیشہ کرکے لوگوں کے جوتے مرمت کرتا ہے۔عمر ۶۰ سال سے اوپر ،سفید داڑھی،الجھے بال ۔حالات سے بے نیاز یوں بیٹھا تھا گویا زندگی کے مسائل کی گتھیاں سلجھانے کی ناکام کوشش کررہا ہو،کوئی ماسک نہ دستانے،سنسان رستوں کو دیکھ کر وہ اپنی سوچوں میں گم بیٹھاتھا۔زندگی سے پیار نہ ہو تو موت کا ڈر بھی ختم ہوجاتا ہے۔بنیادیں ضرورتیں پوری کرنا مجبوری بن جائے تو پھر زندہ رہنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رہتی۔ شاید انھیں اب بھی امید تھی کوئی جوتا مرمت کروانے کے لیے آجائے اور جسم یا جسموں کو تھوڑا بہت ایندھن مل جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کاکا آپ آج بھی یہا ں بیٹھے  ہیں؟میں نے پوچھا۔ان کی سوچوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا ، میری طرف دیکھا اورسر ہلا کر اثبات میں جواب دیا ،گویا انھیں میری حیرت پہ کوئی حیرت ہی نہیں ہوئی۔میں نے انھیں کرونا وائرس کے عالمی وبا،دنیا میں ہزاروں اموات،حکومت کی پابندیوں،صدر ،وزیر اعظم کی تقاریر،ڈاکٹروں،صحت کے ملکی و عالمی اداروں کی احتیاطی تدابیر وغیرہ کی مثالیں دینے کی کوشش کی،مگر وہ سب کچھ خاموشی سے سنتا رہا،اور چہرے اور آنکھوں کے اشاروں سے یوں تائید کررہا تھا،جیسے انھیں ان سب باتوں کا پہلے سے، اور مجھ سے زیادہ علم ہے۔تو پھر کاکا آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟میر ے سوال سے ان کے ماتھے پر شکنیں آئیں،گویا انھیں ناگوار گزرا۔کاکا آپ ناراض نہ ہوں،میر ا مطلب آپ کوخفا کرنا نہیں بلکہ مجھے آپ سے محبت و ہمدردی ہے،اس لیے پوچھ رہا ہوں۔قسمت گل کا کا کی آنکھوں میں جیسے آنسو اتر آئے۔چہرے پر حیرت،تاسف اور دکھ کی گہری چھائیاں نمودار ہوگئیں۔وہ چہرہ جو تھوڑی دیر پہلے بالکل کورا تھا اب بولنے لگا تھا۔کاکا نے میرے سر پر ہاتھ رکھا۔میں سمجھا وہ خفا اور غصہ ہوگئے ہیں،لیکن نہیں ان کی آنکھوں میں آنسو، ہاتھ میں شفقت اور لہجے میں نرمی تھی گویا وہ مجھے کچھ کہنا اور سمجھانا چاہتے ہوں۔کاکا نے میرے سوال کا جو جواب دیا ،اس نے مجھے حیرت کی ویرانیوں میں گم کردیا ۔کاکا، کا جواب تحریر کرنے سے پہلے، مجھے قدرت اللہ شہاب ،کا شہاب نامہ یا د آیا۔ ۔انھوں نے ’’ڈپٹی کمشنر کی ڈائری ‘‘میں ایک چمارکی ’’خود اعتمادی‘‘کوزندگی کا حیران کن واقعہ قرار دیا تھا ،جس نے ڈپٹی کمشنر(قدرت اللہ شہاب ) کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا کہ’’ اگر آج تم اس سبزی فروش سے(جس کی سبزی مسلسل بارش کی وجہ سے گل سڑ گئی تھی اور کوئی خریدنے والا نہ تھا )سبزی نہ خریدتے تو ارادہ تھا کہ تیری کوڑی کرلیتا۔‘‘یقین کریں قسمت گل کاکا، کاجواب میری ہی نہیں آپ کی آنکھیں بھی کھول دے گا ،جس میں اس ملک اور دنیا کے ان کروڑ وں،اربوں انسانوں کا نوحہ ہے،جو خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں،اور ان کے مسئلے کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔کاکا نے میرے کان کی طرف منہ بڑھاتے ہوئے کہا ’’بیٹا غربت کا وائرس کرونا سے بھی زیادہ خطر ناک ہوتا ہے۔‘‘

Facebook Comments

ابرار خٹک
میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ۔ مری تمام سرگزشت کھوۓہوٶں کی جستجو۔۔۔(اقبال)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply