اٹھارہویں صدی کے دو اہم واقعات۔۔۔توقیر کھرل/قسط1

مغل بادشاہ بہادر شاہ ایک وسیع القلب انسان تھے۔وہ ہندوؤں کے جذبات کی بھی قدر کرتے تھے اور ان کی بعض رسوم بھی ادا کرتے تھے۔ انہوں نے شاہ عباس کی درگاہ پر ایک علم چڑھانے کے لیے لکھنؤ بھیجا جس کے نتیجہ میں افواہ پھیل گئی کہ وہ شیعہ ہو گئے ہیں لیکن جب سنی علماء و اکابر نے اس پہ مواخذہ کیا توبادشاہ نے اس افواہ کی تردید کے لیے مرزا غالب سے ایک فارسی مثنوی لکھواکر عوام و خواص کو اپنے سُنی ہونے کا یقین دلایا (البتہ غالب خود بھی شیعہ تھے)۔

یہ وہ زمانہ ہے جب اہل تشیع اپنے عقائد کو چھپانے پر مجبور تھے اور کوئی بھی اہلِ  بیت کا نام لیتا تو اسے شیعہ سمجھا جاتا یہ تاثر غلط ہے کہ دور حاضر میں بھی صرف اہل بیت کا نام لینے والا علم لگانے والا اب بھی شیعہ کہلاتا ہے۔
.(ضیاء الحق کے دور سے تو شیعہ افراد سے کینہ روز بروز بڑھتا چلا جارہا ہے جس کی ایک مثال حالیہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں اہل ِ تشیع کو الزام دینا شامل ہے)۔

اسی زمانہ میں ایک اور واقعہ بھی پیش آیا کہ 2اکتوبر 1711کو اورنگزیب کے بیٹے معظم نے خطبہ جمعہ میں” علی ولی اللہ” کے الفاظ کے اضافہ کیے جانے کا حکم دیا تو احمد آباد اور لاہور سمیت دوسرے شہروں میں اس حکم کی مخالفت کی گئی۔احمد آباد میں حکم کی تعمیل کی گئی تو خطیب کو قتل کر دیا گیا۔
لاہور میں اس فیصلہ پر عملدرآمد کا وقت آیا تو بادشاہ نے علماء کو بحث و مباحثہ کے لیے بلایا اور انہوں نے اورنگزیب کے بیٹے معظم کو کھری کھری سنادیں اور کہا شہادت ہماری خواہش ہے ہم مرجائیں گے مگر ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

یہ بحث جاری رہی بادشاہ نے حکم دیا کہ بادشاہی مسجد لاہور کے منبر سے نئے احکام کے ساتھ خطبہ پڑھا جائے لیکن لاہور کے عوام سڑکوں پر ایک لاکھ سے زائد افراد تعداد میں باہر نکل آئے ،بالآخر بادشاہ کو اپنا حکم منسوخ کرنا پڑا۔۔
اس احتجاج کے بعد حکومت  نے ایسے عقائد  کی پشت پناہی سے ہاتھ اٹھا لیا۔
بعدازاں بہت سی ریاستوں میں اکثریت شیعہ حکام کی شامل رہی۔ مغلیہ سلطنیت کے آخری دور میں بھی علم ِ تاریخ کے میدان میں بھی مسلک تشیع پیش پیش تھا ۔
علامہ شبلی نعمانی نے مضامین عالمگیری میں بڑے شکایت آمیز لہجے میں اس اَمر کا اظہار کیا ہے کہ عہدِ عالمگیری میں سب سے برگزیدہ مورخ شیعہ تھے ۔۔
اردو ادب کی ابتدا ء اور ترقی میں لکھنو ،دکن ،مرشد آباد اور عظیم آباد کے سادات اور خاندانوں کا کردار شامل ہے۔

اگلی قسط میں قاضی نور اللہ شوستری کا تعارف تفصیلی انداز میں بیان کیا جائے گا۔اور اس ضمن میں یہ بھی واضح کیا جائے گا  کہ حکومت کی حمایت کے باجود انہیں کیسی مشکلات کا سامنا رہا اور ان کی کیا خدمات ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مآخد
رُود کوثر ،اکرام خاں
آخری مغل بادشاہ کون تھا۔روزنامہ دنیا
ظفر بادشاہ ۔ریختہ ویب

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply