سُرخ خواب۔۔رانا اظہر کمال

آج صبح کچھ دیر کے لیے آنکھ لگی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑی اور خوبصورت شاہراہ کے کنارے کھڑا ہوں جس کے دونوں اطراف بالکل ایک جیسی سفید رنگ کی بلند و بالا عمارات ہیں جو سادگی اور حسن کا امتزاج لیے ہوئے ہیں۔ ہر عمارت پر ایک سرخ رنگ پرچم لہرا رہا ہے جس پر درانتی اور ہتھوڑے کا نشان نمایاں ہے۔ اتنے میں ایک سیاہ رنگ کی کار میرے قریب آ کر رکتی ہے جس سے میں سفید بے داغ بند گلے والا کوٹ پہنے ایک فرشتہ جس نے اپنے پَر پشت پر فولڈ کر رکھے ہیں، اتر کر میرے قریب آتا ہے اور مسکرا کر کہتا ہے:
فردوس قرمزی میں خوش آمدید!

میری نظریں فرشتے کے کوٹ کے بائیں جانب بنےسرخ ستارے پر ٹکی ہیں اور میں فرشتے سے پوچھتا ہوں کہ کیا فردوس میں بھی کمیونزم کی علامات مستعمل ہیں؟
فرشتہ مسکرا کر جواب دیتا ہے: کیوں نہیں؟ کیا آپ کو مالک کائنات کے انصاف پر کوئی شبہ ہے؟

میں گھبرا کر کہتا ہوں: نہیں، نہیں ۔۔۔۔۔ میں نے ایسا تو نہیں کہا ۔۔۔۔ بس ذرا حیرت ہو رہی تھی، اس لیے پوچھ لیا۔
فرشتہ مسکرا کر کہتا ہے: اپنی حیرت پر اور قابو رکھیے اور گاڑی میں تشریف رکھیے ۔۔۔۔۔ آپ کے وزٹ کا وقت محدود ہے۔

میں فرشتے کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جاتا ہوں۔۔۔ گاڑی چلنے لگتی ہے اور مختلف سڑکوں سے گزرتی ہوئی ایک خوبصورت عمارت کے سامنے جا رکتی ہے۔ یہ ایک تین منزلہ عمارت ہے جس کی چھت سرخ رنگ کی ہے اور طرز تعمیر کچھ جانا پہچانا سا معلوم ہوتا ہے۔ فرشتہ گاڑی سے اترتا ہے اور مجھے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کر کے عمارت کے اندر داخل ہو جاتا ہے۔ ایک طویل راہداری کے دونوں جانب کمروں کے دروازے ہیں، لیکن فرشتہ راہدار کے آخر میں موجود ایک بڑے دروازے کے سامنے جا کر رکتا ہے۔ کمرے کے باہر بھی اسی وضع کا ایک اور فرشتہ موجود ہے جس سے وہ کچھ کہتا ہے جو مجھے سنائی نہیں دیتا لیکن وہاں موجود فرشتہ سر کو خفیف سی جنبش دے کر دروازہ کھول دیتا ہے۔ ہم دونوں کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔
میرا میزبان فرشتہ مجھے بازو سے پکڑ ایک طرف لے جاتا ہے اور ہدایات دینے والے انداز میں کہتا ہے :
آپ یہاں صرف وزٹ پر تشریف لائے ہیں ۔۔۔۔ یہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ آپ دیکھ اور سن سکتے ہیں لیکن آپ کو میرے سوا کسی سے بھی بات کرنے کی اجازت نہیں اور نہ ہی آپ کسی کے کام میں مخل ہو سکیں گے۔
میں اثبات میں سر ہلاتا ہوں اور فرشتے کے پیچھے پیچھے چل پڑتا ہوں۔ کمرے میں موجود فرنیچر انتہائی سادہ ہے۔ پرے دیوار کے سامنے ایک بڑی میز ہے اور اس کے پیچھے ریوالونگ چیئر پر بیٹھے ایک شخص نے گرے کلر کا بند گلے والا کوٹ پہن رکھا ہے، اس کے سامنے میز پر کئی فائلیں موجود ہیں اور ایک فرشتہ اس کے دائیں جانب کھڑا ایک فائل کے مندرجات کے متعلق اس سے کچھ بات کر رہا ہے۔ فرشتے کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس شخص کا سیکرٹری ہے لیکن میری توجہ اس شخص پر مرکوز ہے جو انہماک کے ساتھ فائل کا مطالعہ کر رہا ہے۔ اس شخص کا چہرہ کچھ پھولاہوا اور آنکھیں مِچی مِچی سی ہیں اور اس کا چہرہ جانا پہچانا معلوم ہوتا ہے لیکن یاد نہیں آ رہا کہ اسے کہاں دیکھا ہے؟

میں اپنے میزبان سے سوال کرتا ہوں کہ یہ کون صاحب ہیں؟ کچھ دیکھے ہوئے معلوم ہو رہے ہیں لیکن نام ذہن میں نہیں آ رہا۔
فرشتہ دھیمی آواز میں جواب دیتا ہے کہ یہ عوامی جمہوریہ چین کے عظیم رہنما ماؤ زے ڈونگ ہیں اور فردوس قرمزی کے منتظم اعلیٰ۔

حیرت سے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔ ذرا حواس بحال کر کے میں پھر میزبان سے کہتا ہوں :
میرے علم کے مطابق تو چیئرمین ماؤ خدا، اخروی زندگی اور جنت جہنم پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے، پھر یہ یہاں کیا کر رہے ہیں؟
فرشتہ ناگواری سے مجھے دیکھتا ہے اور کوٹ کی جیب سے ایک ٹیبلٹ نکال کر اس پر کچھ پڑھنے لگتا ہے ۔۔۔۔۔ پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر میری جانب دیکھتا ہے اور کہتا ہے:
کامریڈ ! آپ کا قصور نہیں، آپ پاکستان سے تشریف لائے ہیں جہاں لوگوں کو جنت اور جہنم کے فیصلے کرنے کا مرض لاحق ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ خدائی اختیارات کے بارے میں اپنا منہ بند رکھیے اور اپنا وزٹ مکمل کر کے واپس تشریف لے جائیے ۔۔۔۔ عین ممکن ہے کہ جب آپ مستقل طور پر یہاں منتقل ہوں تو یہ جگہ دوبارہ دیکھنے کا موقع تک نہ ملے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں مایوس ہو کر خاموش رہتا ہوں اور دوبارہ چیئرمین ماؤ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہوں جہاں سیکرٹری نے پہلی فائل اٹھا لی ہے اور دوسری فائل کھول کر ماؤ کے سامنے رکھ دی ہے۔
یہ کیا کیس ہے؟ چیئرمین ماؤ سیکرٹری سے پوچھتے ہیں۔
کامریڈ چیئرمین! یہ آپ کے دوست اور ہمسایہ ملک کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست ہے جو فردوس قرمزی میں رہائش کے خواہشمند ہیں۔ ان کی درخواست حکام بالا کو بھیجنے سے قبل آپ کی ریکمنڈیشن ضروری ہے۔
اوہ کامریڈ بھٹو ۔۔۔۔۔ مائی فرینڈ ۔۔۔۔۔ ماؤ کے چہرے پر ایک خوشگوار مسرت دکھائی دیتی ہے۔
جی کامریڈ ۔۔۔۔ آپ کے دوست۔ سیکرٹری جواب دیتا ہے۔
چیئرمین ماؤ فائل دیکھتے ہوئے پھر سوال کرتے ہیں: یہ آج کل کہاں رہائش پذیر ہیں؟
سیکرٹری جواب دیتا ہے: کامریڈ چیئرمین! انہیں فی الحال بے گناہ قتل ہونے والوں کے گرین بلاک میں فلیٹ الاٹ ہوا ہے لیکن یہ آپ کی رہائش والے بلک میں الاٹمنٹ کے خواہشمند ہیں۔
ماؤ زےڈونگ میز پر پڑی گرین ٹی کی پیالی اٹھاتے ہیں ایک گھونٹ بھر کر کچھ سوچنے لگتے ہیں ۔۔۔۔ ان کی ادھ کھلی آنکھیں مزید مِچ جاتی ہیں۔ چند لمحے سوچنے کے بعد وہ ایک لمبا سانس لیتے ہیں اور سیکرٹری سے کہتے ہیں:
یہاں ریڈ سکوئر کے لیے تو وہ کوالیفائی نہیں کرتے لیکن بہرحال فردوس قرمزی میں رہائش ان کا حق بنتا ہے۔ تم ایسا کرو ان کے لیے فردوس قرمزی کے جنوب مشرقی حصے کے آخری بلاک میں ایک اپارٹمنٹ کے کاغذات بنوا کر لے آؤ لیکن اس اپارٹمنٹ کی ایک کھڑکی مذہبی بلاک اور دوسری زمینداروں کے بلاک کی جانب کھلتی ہو ۔۔۔۔۔ مجھے افسوس ہے لیکن اپنے دوست کے لیے اس سے زیادہ کی سفارش نہیں کر سکتا۔

Facebook Comments

ژاں سارتر
کسی بھی شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا اصل تعارف ہوتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply