وبا اور نااہلی۔۔ڈاکٹر وقاص احمد

ہمارے معاشرے میں تفریق کا عمل کتنا گہرا ہو چکا ہے ۔اگر اس مظہر کا فیس بک کے ذریعے اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے تو نظر آتا ہے کہ وبا جیسی آفت بھی ہمیں ایک مشترکہ کاز کے لئے اکھٹا ہونے پہ آمادہ نہ کر سکی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم اپنے گروہی اور سیاسی تعصبات کا ٹوکرا اٹھا کر وبا کو ایک موقع جان کر اپنے تراشے گئے ہیروز اور نشانہ زدہ دشمنوں کی مدح سرائی یا ہجو کا ٹھیکہ اٹھائے بیٹھے ہیں ۔
ہم لوگوں کو عوام کے معاشی ،نفسیاتی اور سماجی حالات سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ۔ہم بس اپنی اپنی پسند کی ڈفلی مسلسل بجانے پہ مصر ہیں ۔
پاکستان میں وبا کی ہر لمحہ بدلتی صورتحال، حکومت کے رسپانس اور ہر آنے والے دن کے اعتبار سے حکمت عملی کی تبدیلیوں کو دیکھنے کے لئے جس مطالعہ اور وسعت نظر کی ضرورت تھی۔ وہ بالکل دکھائی نہیں دی۔
جدید طب کے شعبہ جات سے جڑے لوگ بھی اپنی کمیونٹی کے مسائل کو سامنے رکھنے کے علاوہ اس سے آگے سوچتے دکھائی نہیں دیئے۔ کچھ نے تو طب کے اصولوں سے وابستگی بالائے طاق رکھ کر ایک یا دوسرے سیاسی موقف کو ہی اپنانے میں عافیت سمجھ لی۔ اسی طرح ڈاکٹرز کا ایک طبقہ اپنی حفاظت کو اتنا مقدم کیے بیٹھا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں پہ پڑنے والے بوجھ کی پروا کیے بغیر کلینکس بند کر چکا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں شدید رش اور ایمرجنسی کے خطرے کے پیش نظر آؤٹ دور بند ہیں۔
پرائیویٹ کلینک کے لئے آسان تھا کہ وہ اتنے بے شمار پیسے کما لینے کے بعد مریض سے کچھ ہمدردی دکھاتے اور کچھ اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے اپنی حفاظت اور سوشل ڈسٹنس کے ساتھ مریضوں کی محدود تعداد کا چیک اپ جاری رکھتے مگر یہاں قربانی کے جذبے سے متاثر کچھ ایسا رویہ سامنے نہیں آ سکا جو مثالی کہلاتا، اگرچہ کچھ افراد نے کلینک کھول بھی رکھے ہیں یا رضا کارانہ طور پہ مریضوں کی حتی الامکان خدمت کر رہے ہیں، انہیں میرا سلام ہے۔
دوسری طرف بے حس حکومت کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں حفاظتی طبی سامان معمولی درجے کا بھی دستیاب نہیں اور سرکاری نوجوان ڈاکٹر کو صرف قربانی کا بکرا بنانے کی تیاری ہے ۔۔
اسی رنگا رنگی کا نتیجہ ہے کہ آج معاشرے کا کمزور طبقہ معلومات کی عدم فراہمی، تعلیم سے محرومی اور کسی بھی منظم آگاہی کے پروگرام کی موجودگی کے بغیر اٹکل پچو قسم کے حفاظتی طریقہ کار اختیار کرتا ہے یا پھر اس ہڑ بونگ سے بے نیاز اپنی مرضی پہ عمل پیرا ہے ۔سادہ سی مثال ہے کہ ماسک کے حوالے سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور دیگر طبی اداروں کا کہنا تھا کہ یہ عام پبلک کے لئے ضروری نہیں مگر آپس میل جول میں دو میٹر کا فاصلہ لازمی ہے مگر ایک اندازہ ہے کہ سڑکوں پر ستر فیصد لوگ ماسک پہنے نظر آتے ہیں اور بیس فیصد سوشل ڈسٹنسنگ پہ عمل پیرا ہیں۔
دوسری طرف مڈل کلاس میں خوف کی ایسی نفسیات سرایت کر رہی ہے جو عوام کو خطرناک حد تک ذہنی امراض کے قریب کر رہی ہے ۔
حکومت اس وبا کو سنبھالنے میں اس حد تک ناکام ہے کہ ہم وبا کو کنٹرول کرنے کا دوسرا موقع بھی کھو چکے ہیں جس میں لاک ڈاؤن کے دوران مشکوک اور تشخیص شدہ مریضوں کے قریبی تعلق والے افراد کو ٹیسٹ کر کے وبا کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ۔۔
اب حالات یہ ہیں کہ میڈیکل فیلڈ کے علم کے مطابق پاکستان میں وبا کا پھیلاؤ بڑے پیمانے پہ ہو چکا ہے اور ہم کسی معجزہ کے منتظر ہیں ۔
خوش قسمتی سے جب کچھ ایسے معمولی مگر اہم اشارے ملنا شروع ہوئے جس سے نفسیاتی طور پہ خوف کا شکار عوام جو پہلے ہی حکومت کی صفر بٹا صفر کارکردگی کے باعث مایوسی کا شکار تھی ،کو کچھ حوصلہ اور امید دینے کی کوشش ہوئی تو ایسے افراد سامنے آنا شروع ہو گئے جو شاید بہت شدت سے پاکستان کی سڑکوں پہ لاشیں نظر آنے کے منتظر ہیں۔ ایسے بیرون ملک رہنے والے افراد سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ ہم پہلے ہی لاشیں دیکھ دیکھ کر تھک چکے ہیں۔ اگر ہم نے ایک یا دو ہفتہ بعد لاشیں اٹھانی ہی ہیں تو ہمیں یہ دو ہفتے تو سکون سے گزار لینے دیں۔ حکومت کی حرام زدگی کو ہم براہ راست بھگت رہے ہیں۔ آپ سات سمندر پار سے ہڈ بیتی کو ویسے نہیں سمجھ سکتے جیسے ہم جانتے ہیں۔
ساری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حکومت اب لاک ڈاؤن کو بتدریج ختم کر کے آہستہ آہستہ معاشی سرگرمی کو واپس لائے۔ لاک ڈاؤن کا واحد مقصد وسیع پیمانے پہ تشخیص کے ذریعے متاثر افراد کو بیماری پھیلانے سے پہلے ہی الگ کرنا تھا۔ تشخیص کے وسیع اور مسلسل عمل کے بغیر لاک ڈاؤن ایک کاسمیٹک اور کاؤنٹر پروڈکٹو عمل ہے، یعنی حکومت صرف کورونا کے ساتھ ہونے والی اموات میں معاشی قتل سے ہونے والی اموات کو شامل کر کے انسانی المیہ کو بڑھانے کا کام کر رہی ہے ۔
لاک ڈاؤن کو آہستہ آہستہ کھولنا اور عوام کا اپنی مدد آپ کے تحت سماجی فاصلہ ممکنہ حد تک برقرار رکھنا ہی اب آخری حل ہے۔ دوسری طرف اگر قدرت کسی شکل میں اپنی مہربانی عوام پہ اتار دے تو اسے کس پیر کے کھاتے ڈالنا ہے وہ آپ لوگوں کی اپنی مرضی ہے۔
نوٹٜ پاکستان میں عوام لاک ڈاؤن کی وجہ سے تیزی سے غربت کا شکار ہے۔ چھوٹے چھوٹے کام کاج والے لوگ جیسے موچی، نائی، ٹھیلے والے اور دکانوں کے چھوٹے بھیک مانگنے کو ہیں۔ لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں، اشیائے خور و نوش کی فروخت کم ہو گئی ہے۔ وبا کنٹرول نہیں ہو رہی تو باقی وجوہات سے ہوتی اموات کو روکیں، بس یہی ہاتھ جوڑ کے التجا ہو سکتی ہے۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply