• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرونا وائرس پھیلا ہے یا پھیلا یا گیا ہے؟۔۔اسد مفتی

کرونا وائرس پھیلا ہے یا پھیلا یا گیا ہے؟۔۔اسد مفتی

برطانوی اخبار “سنڈے ایکسپریس”کے مطابق خبر یوں ہے” برطانوی سیکرٹ سروس ایم آئی 5کو خطرہ ہے کہ پناہ گزینوں کے بھیس میں برطانیہ آنے والے عراقی جاسوس خطربناک کیمیائی ہتھیار بھی اپنے ساتھ لارہے ہیں،سیکرٹ سروس کے ایجنٹوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ممکنہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے چوکس رہیں۔۔
اخبار نے اپنی حالیہ اشاعت میں آگے چل کر لکھا ہے “اس بات کا خطرہ انٹرنیشنل سیائی آپریشن میں یہ جاننے کے بعد سامنے آیا ہے کہ داعش اپنے کیمیائی و حیاتیاتی خطرناک ہتھیار دہشتگردوں تک پہنچانے کے لیے اپنے لوگوں،جو کہ پناہ گزینوں کے بھیس میں ہوں گے،کے ذریعے برطانیہ بھیج سکتے ہیں۔” اور یہ کہ داعش کے راہنما ؤں اور ان کی حکومت نے ان کو وارننگ دی ہے کہ اگر انہوں نے حکم عدولی کی تو ان کے اہل خانہ اور دوستوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔وغیرہ وغیرہ
سوال یہ ہے کہ برطانیہ کے اس “سچ”کا تعین کون کرے گا؟
آج دنیا کو اس بچے کا انتظار ہے جو برہنہ بادشاہ کو یہ بتا سکے کہ وہ برہنہ ہے،ترقی،امداد اور خیر سگالی کے جتنے خوش نما لباس آج یورپ اور امریکہ نے پہن رکھے ہیں،وہ سب کے سب ہر چند کہیں کہ ہیں،نہیں ہیں!
اس لیے کہ انسانوں اور انسانوں میں تفریق کرنے والا تفریق کرنے والا نطام خواہ کتنی ہی کامیابیوں کا دعویٰ دار کیوں نہ ہو،اس وقت تک ناکام کہلائے گا،جب تک کہ فلاح کا دائرہ کار پوری انسانیت کو یکساں طور پر اپنے گھیرے میں نہیں لے لیتا،اس کی مثال میں یوں دیتا ہوں کہ جراثیمی اور کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں دنیا آج کتنا جانتی ہے؟
ان ترقی یافتہ ممالک امریکہ،برطانیہ نے اعلان شدہ تجربات کے علاوہ جراثیمی،کیمیاوی اور ریڈیائی تابکاری کے کتنے خفیہ تجربات کیے ہیں؟دنیا میں انسانوں کی ایک پوری نسل ایسی بھی ہے جس کی حیثیت ترقی یافتہ بے لباس شہنشاہوں کے نزدیک تجرباتی چوہوں سے بھی کم ہے،اپنی بات کے ثبوت کے لیے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ایٹم اور ہائیڈروجن بموں سے کہیں زیادہ خطرناک وہ جراثیمی اور کیمیاوی ہتھیار ہیں جو امیرکہ اور برطانیہ نے بڑے پیمانے پر تیار کررکھے ہیں،اسرائیل،چین،روس،فرانس ان سے کمتر سہی،لیکن وہ بھی اس زمرے میں شامل ہیں،1993کے جون یا جولائی کے شمارے ٹائم میگزین میں شائع ہونے والی رپورٹ اس کی شاہد ہے،اس کے علاوہ جنوری1994کے نیوز ویک اور ٹائم کی متعلقہ رپورٹیں دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہوتیں،اگر اسے واقعی دنیا کے مستقبل کی فکر لاحق ہوتی،اگر اس کی آنکھوں پر دبیز پردے نہ پڑے ہوتے،آپ کو یاد ہوگا بہت سال پہلے (غالباً 1996میں)بھارت کے شہر سورت میں طاعون کی ہولناک وبا پھیلی تھی۔یہ پھیلی نہیں تھی،بلکہ امیرکہ نے پھیلائی تھی،تاکہ ٹیٹرا ساکلین بنانے والی ٹرانس نیشنل کمپنیوں TNC’s کو فائدہ پہنچایا جاسکے،اور یہ بھی ٹیسٹ کیا جاسکے،کہ ضرورت پڑنے پر دشمنی کے علاقوں میں طاعون یا کوئی دوسری مہلک وبا کامیابی کے ساتھ پھیلائی جاسکتی ہے،کہ نہیں؟
یہاں تک کہ ایڈز کے جرثومے کے بارے میں ایک امریکی سائنسدان ڈاکٹر ایلن جونئیر کا دعویٰ ہے کہ ایڈز کا وائرس بھی امریکی جراثیمی پروگرام کی پیداوار ہے،اسی ڈاکٹر ایلن کینٹویل جونئیر کی کتاب،جو ایڈزکے سوداگروں کے بارے میں 1993میں شائع ہوئی تھی کے کچھ اقتباسات نیو افریقن میگزین میں بھی شائع ہوئے تھے،پھر اسی کتاب کے حوالے سے کھانا کے ایک ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اوضو نے اپنی کتاب تحریر کی جس میں نئی تحقیقات کے علاوہ افریقین میگزین کے طویل پیراگراف بھی شامل کیے لیکن نہ ڈاکٹر کینٹ ویل جونئیر کی کتاب نے شہرت پائی نہ ڈاکٹر اوضو کی مایہ ناز کتاب کو پذیرائی مل سکی،جس کی وہ مستحق تھی،ڈاکٹر ایلن کنسویل نے لکھا ہے”ایڈز کے وائرس کی پیچیدہ سالمی بناوٹ کی بنا پر یقین سے کہا جاسکتا ہے،کہ یا تو اس وائرس کو بنایا گیا ہے یا انجینئر کیا گیا ہے یا پھر یہ کسی دوسرے مہلک وائرس یا کسی قدیم جراثیم کی پیداوار ہے۔ڈاکٹر اوضو کی ریسرچ ہے ہ بابر امریکی سائنسدانوں کو یقین ہے کہ ایڈزوائرس جراثیمی ہتھیاروں ی تیاری کی امریکی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔
کچھ ایسا ہی دوسرے شعبوں میں ہورہا ہے،پھر دنیا میں اس وقت سائنس سفید فام کے قبضے میں ہے،ترقی کے جو مثبت مظاہر ہمیں اپنے چاروں طرف دکھائی دیتے ہین،ان سے کہیں زیادہ منفی مظاہر دنیا سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں،کبھی کسی میگزین یا کسی کتاب میں کچھ چھپ بھی جاتا ہے تو اس بات کا بھرپور انتظام کیا جاتا ہے کہ بات جہاں کی تہاں ختم کردی جائے، اور افشائے راز کو شہر ت کی کھلی فضا نصیب ہوسکے۔
آخر پہ میں ایک واقعہ کے بعد اپنی بات ختم کرتا ہوں،1972میں جبکہ میں ہنوز پاکستان میں مقیم تھا،مجھے ایک روسی کتاب پڑھنے کو ملی۔
یہ کتاب “غی ملکی کتابوں کا اشاعت گھر “کے ادارے ن یشائع کی تھی،اس میں لکھا تھا،امریکہ کی ریاست پانامہ میں 1972کے جون جولائی کے مہینے میں جراثیمی اسلحہ پروگرام کے تحت سوزاک کے چار سو غریب سیاہ فام امریکی مریضوں پر ایسے تجربات کیے گئے جن کا مقصد یہ پتہ لگا نا تھا کہ سوزاک کے ان سیاہ فام مریضوں کو ان سے محروم رکھا گیا۔یہاں تک کہ وہ سب مر گئے،لیکن تجربہ کارنے والوں کا مقصد حاصل ہوچکا تھا۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply