اسلام اک مکمل ضابطہ حیات۔حمزہ حنیف مساعد

اسلام کی روح تین ناقابل تردید حقائق پر مبنی ہے۔  توحید ، رسالت، آخرت، اگرچہ تقاضا ایمان کی تکمیل کے لیے دیگر الہامی کتب، ملائکہ، تمام انبیاء کرام، قیام ، یوم حساب، جنت اور جہنم وغیرہ پر یقین قلبی ضروری ہے لیکن مذکورہ بالا تین حقائق میں پیغام حق کے تمام پہلو آشکار ہو جاتے ہیں۔ توحید نہ صرف انسان کو خالق و مالک کی یکتائی اور یگانگت کا تعارف پیش کرتی ہے بلکہ آغاز حیات اور اس کی حقانیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ تصور رسالت کے بغیر انسان اپنی زندگی اور اعمال کو صحیح سمت پر نہیں ڈال سکتا اور تصور آخرت محض اخروی جز اوسزا کا یقین مطلق نہیں بلکہ یہ ہمیں حیات بعد الموت اور دوسرے عالمین کے ساتھ ہماری وابستگی کا پیغام حق سناتا ہے۔ اسی لیے یاد رہے کہ دین اسلام سے بے بہرہ ہونا ہی حقیقی وازلی جہالت ہے۔

مفہومِ اسلام:
لغوی اعتبار سے اسلام کی کئی تعریفیں ہوتی رہی ہیں لیکن اس کی ایک نہایت سادہ اور سہل تعریف ہے جسے سمجھے بغیر کوئی مسلمان اتباع دین کی روح کو نہیں پا سکتا۔ اسلام کے سادہ سے معنی توہیں فرمانبرداری ،لیکن حق یہ کہ فرمانبرداری محض زبان سے ادا نہیں ہو سکتی۔ فرمانبرداری کا اظہار عمل کے سواء کسی طور پر بھی ممکن نہیں اور نہ اﷲ کریم زبانی فرمانبرداری کو کسی خاطر میں لاتا ہے۔ اسی لیے پورے قرآن میں سب سے زیادہ تکرار ’’امنوا وعملوا الصالحات‘‘کی ہے یعنی ایمان لاؤ اور اعمال صالح کرو۔
ارشادِ الٰہی ہے کہ :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے

اسلام نے انسان پر نہ صرف اپنی اصلاح کی ذمہ داری عائد کی ہے، بلکہ اپنے اہل و عیال کی اصلاح کی ذمہ داری بھی اس پر ڈالی ہے،اپنی اولاد ،عزیز واقارب اور اپنے خاندان کو راہ راست پرلانے کا فریضہ بھی گھر کے سربراہ پر عائد کیا ہے۔خود حضرات انبیاء علیہ السلام بھی اس فریضے سے مستثنیٰ قرار نہیں دیے گئے ،حتی کہ امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کرنے کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے جو پہلا تبلیغی حکم دیا گیا وہ یہ تھا ”وانذر عشیرتک الاقربین “(کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیے ) عشیرہ کے معنی کنبہ اور خاندان کے ہیں یعنی تزکیر و ترہیب اپنے گھر سے شروع کریں،چنانچہ اسی حکم کی تعمیل میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عزیز و اقارب اور اپنے خاندان کو کھانے پر جمع کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا”اے بنی عبد المطلب ، مجھے اللہ کی طرف سے تمہارے حق میں کوئی اختیار نہیں ، تم میرے مال میں سے جتنا چاہو مجھ سے لے لو، خدا کی قسم جو چیز میں تمہارے پاس لے کر آیا ہوں، مجھے عرب میں کوئی ایسا جوان معلوم نہیں جو اپنی قوم کے پاس اس سے بہتر کوئی چیز لایا ہو ، میں تمہارے پاس دنیا اور آخرت کی بھلائی لایا ہوں اور مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ تم کو اس کی طرف دعوت دوں،تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میرے ہاتھ مضبوط کرے اور اس کے نتیجے میں میرا بھائی بن جائے “۔ اسی طرح ایک دوسری آیت میں اللہ تعالی نے مومنین سے خطاب کے ذریعے اسی بات کی تنبیہ فرمائی ارشاد باری تعالیٰ ہے ” اے ایمان والو ! بچالو اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے“۔

یہ دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو فرد واحد سے لے کر معاشرے کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں رہنمائی کرتا ہے کیونکہ یہ خالق کا بنایا ہوا ہے جو انسان کی بحیثیت انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ضرورتوں سے واقف تھا، اس لیے اس مالک کائنات نے اسلام کو بنی نوع انسان کے لیے پسند کیا اور عملی نمونہ پیغمبر ﷺ کے ذریعے فراہم کیا اور بے شک آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل ہی دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت ملتی ہے لیکن جب جب انسان نے اس رہنمائی اور طریق کار (سنت) کو پس پشت ڈالا اور اپنی عقل و دانش کو معیار بنایا تو ٹھوکر کھا بیٹھا کیمونزم سوشلزم کے نظام آئے، پذیرائی بھی ملی مگر چند سال ہی، اور اب کیپٹل ازم کا نظام جس نے معاشرے کی خلیج کو کچھ اور بڑھاوا دیا، امیر کو امیر تر اور غریب کو نوالے نوالے کا محتاج کر دیا. کیمونزم اور سوشلزم کے پرچارک وہ تمام فکری یتیم جو کیمونزم کی گود میں پیدا ہوئے اور اس کے ترانے گاتے اور پرچم لہراتے جوان ہوئے، اب لے پالکوں کی   طرح کیپٹل ازم کی گود میں پڑے نظر آتے ہیں اور وہی راگ الاپتے ہیں جو کل وہ کیمونزم کے لیے الاپ رہے تھے. اب نظام سرمایہ دارانہ ہے لیکن اس کی راہ میں ابھی ایک رکاوٹ باقی ہے اور وہ ہے مذہب، جو حائل ہو جاتا ہے، حلال حرام، جائز و ناجائز، ذخیراندوزی، ناجائز منافع خوری، سود اور دوسرے تمام غیر اخلاقی افعال کے درمیان، اب اس مذہب کو معاشرتی یا اجتماعی زندگی سے نکالنے کے لیے سیکولر طبقہ معرض وجود میں لایا گیا جس نے خوش نما اصطلاحات اور پر فریب نعروں سے لوگوں کو بہلانے پھسلانے کا کام شروع کیا.

اگر آپ یہودی پروٹوکول کا مطالعہ کریں تو اس میں بھی دانشوران یہود یہی فرماتے نظر آئیں گے کہ اپنے مکروہ مقاصد کو خوبصورت الفاظ اور نعروں میں چھپاؤ تاکہ عوامی سطح پر مخالفت کم ہو، جس کی چند عام فہم مثالیں روشن خیالی، آزادی اظہار رائے وغیرہ  ہیں، لیکن اگر ان کی گہرائی اور گیرائی میں اترا جائے تو اندر سے وہی مکروہ مقاصد ہی برآمد ہوں گے، جن کا اول و آخر ہدف معاشرے کی تباہی ہی نکلتا ہے، مغرب نے اس کا مزہ چکھ لیا، جہاں معاشرے اور خاندان اپنا وجود کھو چکے ہیں، اب یہی کام اسلامی ممالک میں کرنے کی سعی کی جا رہی ہے کہ مذہب کو معاشرتی زندگی سے نکال کر ایک مادر پدر آزاد معاشرہ تشکیل دیا جائے. ایسا کون چاہتا ہے، اس کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں.

اس میں ایک گروہ تو وہ ہے جس کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہے، جس کے پاس دھن دولت کے انبار ہیں، لیکن دنیاوی لذتیں کشید کرنے کی راہ میں حائل مذہب ہے، اس لیے ان سے نماز روزے کی بات کی جائے تو ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے، آپ کون ہوتے ہو پوچھنے والے؟

ثانی الذکر گروہ سامراج کے ان فرستادوں پر مشتمل ہے جن کو اسلام مخالف قوتوں نے ہائر کر رکھا ہے، یہ لوگ انفرادی سطح پر بھی پائے جاتے ہیں اور این جی اوز کی شکل میں بھی، اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار کہلاتے. اور حق نمک ادا کرنے کے لیے وقتا فوقتا قرارداد مقاصد پر مباحثہ کرتے ہیں، جو ان کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنسی ہے، نہ نگل پاتے ہیں نہ اگل پاتے ہیں، کبھی قائد کی 11 اگست کی تقریر کو لے کے بیٹھ جاتے ہیں، ان کا کام عوام میں کنفیوژن پھیلانا، حل شدہ مسائل پر بحث کرنا، دور دور کی کوڑیاں لانا اور گھسے پٹے دلائل کی جگالی کرتے رہنا ہے، فرد کے حقوق اور اخوت و مساوات کی بات کرنا لیکن نشانہ ہمیشہ اسلام کو بنانا، منافقت کے یہ پتلے کشمیر، افغانستان ،عراق ،شام، فلسطین کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں، اس کےلیے بھی ملا اور مدرسہ کو مطعون کرتے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

اور آخری گروہ ان سامراجی قوتوں کا ہے جو اپنے خاندانی اور معاشرتی نظام کو تو تباہ کر چکے ہیں، اب ان کی کوشش و کاوش اور وسائل مسلم معاشروں کو تباہ کرنے پر صرف ہو رہے ہیں اور ملکوں ملکوں پھیلے ان کے گماشتے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں، بلکہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کے دکھا رہے ہیں۔
بہت نرم ہے قلبِ انساں کی مٹی مگر
ابنِ آدم نے ہی گلشن میں خار بوئے ہیں!

Facebook Comments

حمزہ حنیف مساعد
مکالمے پر یقین رکهنے والا ایک عام سا انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply