• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نان پشتون فارسی بان پر ظلم کی داستان(حصّہ اوّل)۔۔۔عمیر فاروق

نان پشتون فارسی بان پر ظلم کی داستان(حصّہ اوّل)۔۔۔عمیر فاروق

اس سے قبل کہ افغان عبداللہ عبداللہ کی طرف سے صدر کے متوازی حلف اٹھانے اور آزاد خراسان کے مطالبہ کو ہم ذاتی جاہ پرستی یا کوئی امریکی پلان کہہ کر مسترد کردیں ،معاملہ کی گہرائی اور گیرائی کو سمجھنا ضروری ہے۔

افغانستان میں مختلف نسلی اور لسانی گروہوں کی چپقلش کی ایک لمبی داستان ہے، افغانستان کی تاریخ کا ایک تاریک باب ہماری نظروں سے اوجھل رہا ،جو افغان بادشاہوں اور پشتون اشرافیہ کی طرف سے نان پشتون فارسی بان آبادی پہ روا رکھے گئے جبر کی داستان ہے۔

کم لوگوں کو علم ہے کہ انگریزوں نے افغانستان کا پہلا حکمران امیر یعقوب علی کو بنایا تھا جسے افغانستان کے مختلف قبائل کی گوناگوں چپقلشوں اور ریاستی نظم و نسق پیدا کرنے میں اتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس مقصد کے حصول کے لئے انگریزوں کا دباؤ اتنا شدید تھا کہ اس نے یہ کہہ کر استعفی دیا کہ“ میں اس کی بجائے آپ کا گھسیارا بننا قبول کرلوں گا”۔

اس کے بعد انگریزوں نے امیر عبدالرحمن کو افغانستان کا پہلا بادشاہ بنایا۔ امیر عبدالرحمن مذہبی مزاج کا سخت گیر شخص تھا، جس نے افغانستان کو اسلامائز اور پشتونائز کرکے متحد کرنے کی ٹھانی۔ڈیورنڈ لائن کے معاہدہ کی رو سے جہاں انگریزوں نے پشین اور ژوب کے اضلاع افغانستان سے لئے وہاں اس کے عوض مغربی چترال وا خان تک افغانستان میں شامل کیا گیا یہ لوگ غیر مسلم کیلاش تھے، لہذا سب سے پہلے برق تپاں ان پہ گری ،ان کو اسلام یا تلوار میں سے کوئی ایک قبول کرنے کا آپشن دیا گیا، کتنے تہہ تیغ ہوئے ،اسکا کوئی ریکارڈ نہیں، صرف یہ کہ وہی زندہ رہا جس نے اسلام قبول کرلیا ،تب انہیں نورستانی کی نئی شناخت عطا ہوئی، آج کل وہ یہی کہلاتے ہیں۔ ہزارہ قبائل بھی شیعہ ہونے کی وجہ سے اس عتاب کا شکار ہوئے، بے شمار تہہ تیغ ہوئے، بے شمار کو غلام بنا کر فروخت کردیا گیا ،بلکہ افغانستان کے قانون میں ہزارہ کو غلام تسلیم کیا گیا، ان کا غلامی کا یہ قانونی سٹیٹس بہت بعد میں ظاہر شاہ کے دور میں ختم ہوا، اور ان کو آزاد شہری تسلیم کیا جا سکا۔ اسی طرح تاجک جو شمالی افغانستان میں بدخشاں سے لیکر کابل تک آباد تھے ، کے زرخیز زرعی رقبے چھین کر جنوب کے پشتون سرداروں کے حوالے کردیے گئے اور وہ ان کے مزارعے بن کر رہ گئے۔

اس کے بعد امیر امان اللہ اگرچہ جدیدیت پسند تھا اور اس کے دربار میں علماء کی وہ حیثیت باقی نہ رہی لیکن غیر پشتون آبادی پہ اس کا جبر اسی طرح ہی تھا ،البتہ اس کی بنیاد سے مذہبی عنصر جا چکا تھا اور صرف پشتون نسلی بنیاد رہ گئی تھی۔ اس کے خلاف تاجک بچہ سقہ کی بغاوت کو تاجک آبادی کی بے چینی کے زاویہ سے سمجھا جاسکتا ہے ،اسی لئے تاجک اکثریت کے شہر کابل سے اسے بچہ سقہ نے بڑی آسانی سے بے دخل کردیا ،تب تک وہ اپنی آزاد خیالی کی وجہ سے پشتون علماء کی حمایت سے بھی محروم ہوچکا تھا جن کا پشتون معاشرہ پہ ہمیشہ گہرا اثر رہا اور ہے۔ اس کے بعد اگلا بادشاہ نادر شاہ ایک ہزارہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ ہزارہ لوگ بتاتے ہیں کہ ان بادشاہوں کے دور میں انکی آبادیوں کے اتنے سخت محاصرے ہوا کرتے تھے کہ بعض اوقات لوگ بھوک سے تنگ آکر گوبر پکا کر کھانے پہ بھی مجبور ہوجاتے تھے۔

ظاہر شاہ کے دور میں بالآخر ان آبادیوں کو سکون کا سانس آیا۔ برطانیہ کے جانے کے بعد افغانستان روس کے زیرِ اثر آچکا تھا، تب اس کشمکش نے نیا رنگ اختیار کیا، شمال کی آبادیوں خصوصاً غیر قبائلی معاشرے  کے حامل تاجک وغیرہ  نے جدیدیت کو زیادہ  تیزی سے اپنایا جبکہ جنوب کی پشتون آبادی اپنی قبائلی اور مذہبی ساخت کی وجہ سے جدیدیت کی مزاحم رہی اب اس میں نسلی رنگ کم ہوگیا کیونکہ کابل یا دیگر شہروں کی شہری پشتون آبادی بھی جدیدیت کی طرف زیادہ مائل تھی۔
اگرچہ افغان سوویت وار شمال کی آبادیاں بھی مزاحمت کا حصہ تھیں لیکن یہ نسلی تفاوت بھی واضح طور پہ موجود تھی جب پشتون کمانڈرز تاجک یا دیگر نان پشتون کمانڈرز کو اسلحہ یا دیگر امداد دیے جانے پہ چیں بہ جبیں ہوتے تھے اور ان کی آپسی بول چال بھی بند تھی۔
یہی وجہ رہی کہ سوویت یونین کے واپس جاتے ہی وہ نسلی منافرتیں پھر سے ابھر آئیں اور افغان جہادی کمانڈرز آپس میں خانہ جنگی پہ اتر آئے۔

یہاں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے معاملے کی گہرائی اور وسعت کو سمجھنے میں بری طرح سے ٹھوکر کھائی، وہ اسے ذاتی جاہ پرستی اور انا کی جنگ سمجھتے رہے، وہ یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ آخر کیوں سابقہ کیمونسٹ جرنیل اور ازبک رشید دوستم ، تاجک جہادی لیڈر احمد شاہ مسعود سے ہاتھ ملانے کو مجبور ہوگیا۔ ان کے نزدیک اس جاہ پسندی کا حل اسلامی آئیڈیالوجی میں تھا لیکن یہ حل افغانستان کے مخصوص نسلی و لسانی عدم اعتماد کے ماحول میں ناکافی تھا۔ یہی کوتاہ نظری طالبان کے دور میں بھی قائم رہی حالانکہ تب تک شمال اور جنوب کی تقسیم بالکل واضح ہوچکی تھی۔اسکی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ خود پاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں پاکستانی پشتونوں کی معقول موجودگی تھی لہذا پاکستان کا فطری جھکاؤ اور اعتماد افغان پشتونوں پہ تھا جو ایسی کسی تفریق کا سرے سے ہی انکار کرتے تھے۔
اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف سیکولر افغانی پشتون جو پہلے ہی پاکستان مخالف جذبات رکھتا تھا کے علاوہ شمالی کے تاجک ہزارہ و دیگر بھی پاکستان مخالف ہوگئے۔

امریکہ نے چونکہ اپنی آمد کے بعد طالبان کو حکومت سے نکالا تھا ،لہذا اس نے پشتون اشرافیہ کے ساتھ ساتھ اہل شمال کی بھاری تعداد کو افغان اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بنایا۔ یہ سب طبقات ماضی میں پاکستان کے رویہ سے سخت نالاں تھے جس کا نتیجہ ہم نے پچھلے بیس سالوں میں کافی دیکھ لیا ہے۔

البتہ اس امریکی پالیسی کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ اہل شمال بالخصوص تاجک یا غیر قبائلی معاشرہ کے حامل اور ترقی پسند ہیں تعلیمی ، کاروباری ، معاشی اور سماجی طور پہ نمایاں ترقی کرگئے اور سیاسی طور سے بھی منظم ہوگئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply