ہماری خواہشات کا گوبریلا۔۔۔محسن علی خان

صبح ہوئی اور وہ اپنے بِل سے نکل کر اپنی منزل کی طرف چل نکلا۔ راستہ میں ایک خوبصورت باغ آیا جو کہ رنگ برنگ پھولوں سے سجا ہوا تھا۔ باغ میں سرخ، سفید اور کالے گلاب،گُل داؤدی، گُل بابونہ، موتیا، چنبیلی، مروہ، اور بہت سے پھول اور کلیاں اپنی خوشبو بکھیر رہے تھے۔ اس نے باری باری سب پھولوں کو سونگھا لیکن کسی کی خوشبو نہ پا کر دوبارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا۔ اب وہ ایک باڑہ میں پہنچ گیا جہاں بھینس اور گاۓ اپنی مستی میں گم جگالی کرنے میں مصروف تھیں۔ اس نے اپنی من پسند خوشبو محسوس کی، تیزی سے خوشبو کی جانب بڑھنے لگا، جیسے جیسے خوشبو تیز ہوتی جا رہی تھی اس کی رفتار بھی بڑھ رہی تھی۔ بالآخر جب اس کو خوشبو اپنے دماغ کی نسوں تک محسوس ہونے لگی تو اس نے آنکھیں بند کر لیں اور اس خوشبو کے نشہ میں جھومنے لگا۔ یہ گوبر کی خوشبو تھی اور وہ گوبر کے پاس کھڑا دنیا جہاں سے بے خبر تھا۔

یہ ایک گوبر کا کیڑا ہے جس کا نام گوبریلا ہے، اس کو گونگٹ اور ٹِٹن بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کیڑابھینس اور گاۓ کے گوبر کا عاشق ہے۔ جہاں بھی بھینسوں یا گاۓ کا باڑہ ہو گا آپ سمجھ لیں کے اس کے آس پاس اس کیڑے کی بستی بھی ہو گی۔ گوبریلا کا پسندیدہ مشغلہ گوبر سے کھیلنا اور اس کا ایک گولا بنانا ہے۔ یہ سارا دن محنت کرتا ہے اور گوبر کا ایک گولا بنا لیتا ہے۔ پھر اس گولے کو اپنی بستی میں موجود اپنے بِل کی طرف دھکیلنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ گولا اس سے وزن میں کئی گُنا زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ گوبریلا کا جنون ہی ہے جو اس گولے کو راستوں کی بھول بھلیوں سے گزارتے ہوۓ، کئی نشیب وفراز سے ہمکنار ہوتے ہوتے اپنی منزل کی طرف رواں رکھتاہے۔

جیسے جیسے رات کی تاریکی چھانے لگتی ہے، گوبریلا اپنی بِل کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ جب یہ اپنے بِل کے اوپر پہنج جاتا ہے تو گوبر کے گولے کو بِل میں دھکیلنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔ چونکہ بِل کا سوراخ چھوٹا ہوتاہے اور گوبر کا گولا بڑے سائز کا، اس لئے گوبر کا گولا بِل میں نہیں جاتا۔ گوبریلا اپنی تمام توانائی اس گولے کو بِل میں دھکیلنے پر صرف کرتا ہے لیکن نتیجہ ناکامی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ آخر کار ایک ایسی اسٹیج آجاتی ہے کہ وہ مکمل مایوس ہو جاتا ہے اور بے بسی کے عالم میں گولے کو بِل کے باہر چھوڑتا ہے اور اپنے بِل میں گھس جاتا ہے۔ بِل سے خالی ہاتھ نکلا تھا واپس بھی خالی ہاتھ ہی لوٹا ہے۔ اس کی تمام دِن کی محنت اُکارت چلی جاتی ہے۔

اب ہم ایک لمحہ کے لئے فرض کرتے ہیں کہ دنیا ایک بِل ہے اور ہم سب اس بِل سے باہر نکلے ہوۓ ہیں۔ ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ابھی ہم باڑہ تک نہیں پہنچے ہیں۔ ابھی ہم باغ میں ہی گھوم رہے ہیں۔ ابھی ہم پھولوں کی خوشبو تک آۓ ہیں۔ لیکن ہمیں بھی خوشبو نہیں آرہی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ پھولوں نے خوشبو بکھیرنا بند کر دی ہے۔ اس کی وجہ ہمارے دل و دماغ کی شریانوں کا بے حس ہو جانا ہے۔ ہمارے دیکھنے، سونگھنے، محسوس کرنے والی صلاحتیں ہمارے جسم میں دبی رہ گئی ہیں۔ ہم نے فطرت کے بناۓ قوانین میں ترمیم کرنے کی ٹھان لی ہے۔ اگر ہم دنیا کو صرف ایک بِل رہنے دیتے تو اچھا تھا، ہم بِل سے نکل کر اس سے بڑے گولے بنانے لگ گئے ہیں۔ ہم نے قدرت کے ہر کام میں دخل اندازی شروع کر دی ہے۔ اب ہمارے بناۓ ہوۓ گولے واپس ہم پر گرنا شروع ہو گئے ہیں۔

آپ نے محسوس کیا ہو گا جب سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے، تب سے نہ صرف پاکستان بلکہ  دنیا بھر میں رات کو آسمان اپنے ستاروں کے لاؤ لشکر سمیت جگمگا رہا ہوتا ہے۔ یہ آسمان کی اصل ہے لیکن ہم نے زمین سے آسمان تک آلودگی  کے گوبر کا ایک ایسا گولہ بنا ڈالا تھا جس سے آسمان کی اصل چھپ گئی تھی۔ پرانے زمانوں میں ستارے انسانوں کو تاریکی میں راستہ دِکھانے کے لئے نکلتے تھے، وہ نکلتے اب بھی ہیں لیکن جب وہ زمین کی طرف نگاہ کرتے تھے تو ان کو کچھ نظر نہیں آتا تھا، انسانوں کو نہ دیکھ کر ستارے غمگین ہو جاتے تھے، وہ سمجھتے تھے قیامت قائم ہو چکی ہے، بنی نوع بھی وقت کے دھارے میں بہہ چکے ہیں۔ اب ان کی باری ہے، اب وہ بھی مر جائیں گے، سب ستارے بکھر جائیں گے۔
اب کرونا کے سبب جب انسان کی مشینی زندگی کافی حد تک رُکی تو آسمان کے ستاروں کا ایک بار پھر ہم سے پرانا تعلق قائم ہوا ہے۔ پوری دنیا کی ماحولیاتی آلودگی آدھی سے بھی کم ہو گئی ہے۔ یہی صورت حال فضائی اور شور شرابہ میں کمی کی ہے۔
پہلے ادوار میں وقت بہت آہستہ اور تھما ہوا ہوتا تھا۔ ہر چیز اپنے محور میں سلیقہ سے گردش کر رہی ہوتی تھی۔ اس صدی کے یہ بیس سال بہت تیز رفتار تھے، سورج و چاند کو انسانی ترقی کے ساتھ چلنا پڑ رہا تھا جس کی وجہ سے ان دونوں کی گردش تیز ہو گئی تھی۔ لیکن اب ایک بار پھر وقت تھما ہے۔ ہر چیز سانس لیتے ہوۓ اپنے مدار میں واپس آگئی ہے۔ انسان کی ترقی کی پہاڑ کو ایک ذرّے  جتنے وائرس نے دُھول چٹا دی ہے۔

گوبریلا جب اپنے بِل میں گھس جاتا ہے تو اس کے ناک میں گوبر کے ذرات ہوتے ہیں، وہ ساری رات اسی ذرات کی مہک کو ُکل کائنات کی خوشبو تصور کرتا ہے، اس کو حقیقت کا ادراک نہیں کہ کائنات تو بیش بہا اقسام کی خوشبوؤں سے بھری ہوئی ہے لیکن ان خوشبوؤں کو پانے کے لئے اس کو اپنے جسم کو ان ذرّات سے آزاد کروانا ہو گا۔ آزادی خوشبو ہے۔
انسان بھی ساری زندگی گمراہی، لالچ،حِرص، حسد کے ذرات اپنے جسم پر سجائی رکھتا ہے۔ ان ذرّات کو وہ کستوری اور امبر کی مہک سمجھتا ہے۔ یہی خوشبو انسان کو اس مرکب کی طرف نہیں جانے دیتی جو اس کی بھی اصل ہے۔ راستے میں بہت باغ آتے ہیں صراط مستقیم کے لیکن انسان ان باغوں سے فیض نہیں حاصل کر پاتا، ایک فریب مسلسل ہے جو اس کو ان خوبصورت گلزاروں سے کھینچ کر اس باڑہ کی طرف لے جا رہا ہے جہاں سواۓ گوبر کے کچھ نہیں رکھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قدرت نے وباء کے دنوں میں ایک تو اپنی کائنات کو سانس دلوائی ہے دوسرا ہمیں چانس دیا ہے کہ ہم بھی سانس لے کہ اپنے جسم پر چھائی گِرد جھاڑ لیں۔ اپنے انسانیت والے ذرات جمع کریں اور اس کی فطرت کے مظاہر دیکھ سکیں۔ ہم ان گردشی ستاروں کا پیچھا کر سکیں جو علم نجوم کا ماخذ ہیں، ہم کہکشاؤں کو دیکھ سکیں، ان کے راستوں کی گتھیوں کو سلجھا سکیں۔ اس کے اسرارورموز پر غوروفکر کر سکیں۔ کیونکہ یہ ہمارے لئے نشانیاں ہیں۔ اگر تو ہم اہل علم ہونے کا دعویٰ  کرتے ہیں۔ نہیں تو ہماری ساری محنت گوبریلا کی طرع بے کار ہو جاۓ گی اور ہم نے جو اپنی من پسند کے نفسانی گولے بناۓ ہیں وہ ہماری بِلوں کے باہر ہی پڑے رہ جانے اور ہمارے مقدر میں تاریکی لکھی جانی۔ انتہائی تاریکی، جس کا کوئی اختتام نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply