ادھوری محبت کے نام آخری جوابی خط۔۔۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

عداوتیں تھیں،تغافل تھا،رنجشیں تھی مگر
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بےوفائی نہ  تھی

محبت جب ہاتھ سے ریت کی مانند پھسل جائے تب رہ جانے والی چیزوں میں پچھتاوا اور الزام ہوتا ہے جو برابر اک دوسرے پہ تھوپا جاتا ہے،اس بار بھی تمہارے خط میں ، تم ہی ہمیشہ کی طرح سچے اور میں ساری دنیا کی جھوٹی! جدائی کا سبب میں، لڑائی کا موجب میں۔۔۔کوئی الزام اگر رہ گیا تھا تو وہ بھی لگا دیتے۔”

ہم پہ تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے اکرام ہی تو ہے

کیسے چٹکی بجاتے ، آسانی سے تم نے کہہ دیا کہ میں خوش ہوں،میں زندگی کے رنگ و روپ کی سودائی ہوں،میری محفلیں رقص کرتی ہیں اور میری تنہائی ہمہ جہت خیالات سے مزین رہتی ہے ، لیکن
شاید تمہارا قلم یہ لکھتے ہوئے ساکت پڑ گیا کہ تم نہیں ہو تو ایک لمحہ بھی ایسا نہیں تھا کہ جب میں نے تمہیں یاد نہیں کیا،اک خیال آتا ہے سانس لوں تو دوسرا خیال تمہارے ساتھ جینے کا آتا ہے۔ تم تو یہ لکھنا ہی بھول گئے کہ تمہارے بغیر زندگی ایسی ہے جیسے کوئی ڈائیٹ پیزا ہو جس کو بوڑھے کھانا بھی پسند نہ  کرتے ہوں جس میں بھوک کی تشنگی تک مٹ جائے۔ میں تو جینا ہی بھول چکی ہوں ۔ تم بن یہ زندگی کسی موت سے کم نہیں!تمہیں تو میری ہنسی پسند تھی نا۔۔۔دیکھو مجھے، مجھے ہنسے ہوئے عرصہ ہو گیا ہے،در و دیوار میری اس کھنکھناتی ہوئی ہنسی کو سننے کے لئے ترسنے لگے ہیں۔گھر بےرونق ہے اور شامیں اداسی کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اگر  تم دوسروں کے لئے مروتا ً ہنستے ہو تو یہ اداکاری میں بھی روزانہ کرتی ہوں۔

تم نے کہا کہ میں نے اپنے الفاظ کا پالن نہیں رکھا،جو کہا وہ صرف پانی پہ لکھی کوئی تحریر تھی جسے آتی جاتی لہروں نے مٹا دیا ۔۔ دیکھا جائے تو کیا تم نے رکھا؟؟ تم نے وعدہ کیا تھا کہ جو بھی ہو تم مجھے لینے آؤ گے، میرے لیے پوری دنیا سے لڑ جاؤ گئے۔میرے لئے دیوار چین کی مانند کھڑے ہو جاؤگے کہ کوئی دیو ہیکل بھی اس دیوار کی بنیاد کو نہ  ہلا سکے۔ کیا تم آئے تھے؟۔۔میں نے تم سے کہا تھا کہ محبت کی راہ قربانی مانگتی ہے،اس کے دربار میں چڑھاوے دینے پڑتے ہیں ،اپنے آپ کو مارنا پڑتا ہے ،سرنگوں ہونا پڑتا ہے مگر میں نہیں جانتی تھی کہ تمہاری ہمت ریزہ ریزہ ہو جائیگی اور اسی کے ساتھ میرے خواب بھی۔ تم ساتھ نہیں دے پاؤ گے، اور میں صحیح تھی۔ تمہاری خاطر تو میں سب کچھ چھوڑنے پر آمادہ تھی۔مگر اک بار جو تم میرے لئے سٹینڈ لیتے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے تم تک آنے پہ نہ روک سکتی تھی۔

جانتے ہو ! میں اک لڑکی ہوں جس قدر مرضی پڑھ لکھ جاوں، جہاں تک کی مرضی ڈگری حاصل کر لوں مگر میں اپنے لئے خاوند کا انتخاب نہیں کرپاؤنگی،لوگ اس کو مذہبی قانون پہ محمول کرتے ہیں ۔ میں جانتی ہوں کہ معاشرتی تہذیب اور دینی تمدن کو لوگوں نے کس قدر الگ تھلگ کر کے رکھا ہوا ہے۔۔یہ امتیاز میں چاہوں بھی تو زندگی بھر نہ  ختم ہو۔

تم تو اپنی ہی زندگی میں کہیں کھو گئے تھے، ہاسٹل میں جا کر تم ایسے کھوئے کہ میں تمہیں ڈھونڈ ہی نہ  پائی۔ میں تو تمہیں پھر بھی، ہر سال تمہاری سالگرہ پر خط لکھتی رہی، تم اتنے مصروف تھے کہ جواب تو دور کی بات، انہیں ایک بار پڑھ ہی لیتے۔آج تم فری ہوئے اور تم نے ایک خط لکھ کر احسان جتا دیا، اس احسان کا بہت شکریہ ۔

ہاسٹل صرف تم نہیں گئے تھے، میں بھی گئی تھی ۔ دوست میں نے بھی بنائے تھے۔تم نے نئے دوست کیا بنائے تم تو باقی سب کو بھول گئے ۔تم اپنی کالج لائف میں ایسے مگن ہوئے کہ باقی سب کچھ فراموش کر بیٹھے۔ ہاسٹل میں، جب بھی رابطہ کیا، میں نے کیا، مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میرا نمبر بھی تم نے رکھا یا ڈیلیٹ کر دیا۔ جنوری کی یخ سردیوں میں، میں اپنے روم سے باہر آ کر، لان کے بینچ پر بیٹھ کر تم سے بات کرتی تھی، تمہارے پاس تو اتنا ٹائم بھی نہیں ہوتا تھا کہ ڈھنگ سے بات ہی کر پاؤ۔۔تم مجھے کیا دو گے؟؟؟ تم مجھے میرا یہ ٹائم ہی لوٹا دو۔

لانگ ڈرائیو کو تو تم چھوڑو، ارے تم تو ایک شہر میں ہوتے ہوئے بھی ملنے نہ  آ سکے۔تم نے کہا تھا کہ تم اپنی زندگی کے سارے ٹورز میرے ساتھ کرو گے، ہم نے پہلی برفباری اکھٹے دیکھنی تھی، کیا تم نے اپنی ایک بات بھی پوری کی؟؟ تم تو بس اپنے ہی ہو کر رہ گئے تھے۔

میرے پاس تھا کیا؟؟؟ سوائے انتظار کرنے کے۔۔جو میں نے کیا۔۔۔چار سال۔۔۔لیکن تم نہ آئے، کتنے پیغامات بھیجے، خط لکھے، فون کیے، منتیں کیں۔۔ تمہیں آنے کی فرصت نہ  ہوئی، اب بھی سارا الزام مجھ پر ہی ڈال رہے ہو۔
جب تم نہ  آئے تو بتاؤ، میں کیا کرتی؟؟ اور کتنے جھوٹ بولتی؟؟ یہ یک طرفہ محبت کا بوجھ میں کب تک اٹھاتی؟؟ کب تک میں تمہاری مجبوریاں سمجھتی؟؟ خود جب تم مجھے میسج کرتے تھے، میں ایک منٹ لیٹ بھی جواب دیتی تو تم ناراض ہو جاتے تھے، اپنی بار تو تم نے چار سال انتطار کروایا، تم یہ بتاؤ، اگر تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے ۔ لیکن اس سب کے باجود، غلطی ساری میری ہی ہے۔
تو ہاں!! میں نے اپنے لیے علیحدہ راستہ چنا، لیکن افسوس یہ کہ، میں نے یہ فیصلہ لینے میں چار سال لگا دئیے۔ کیونکہ ہمارے راستے تھے ہی جدا، یہ تو میں ہی پاگل تھی جو سمجھ بیٹھی تھی کہ “محبت فاتح عالم”،میں ہی نادان تھی جو سمجھ بیٹھی تھی کہ میری محبت تمہیں پگھلا دے گی، میں تمہیں اپنی محبت سے جیت لوں گی، ہاں میں غلط تھی۔۔۔ تم صیح تھے کہ اس دنیا میں دو دلوں کا ملاپ ممکن ہی نہیں ۔
میں اب آگے بڑھ چکی ہوں، بڑھی تو نہیں ہوں۔۔۔لیکن ابھی بھی کوشش کر رہی ہوں۔۔کیا پتا اس کوشش میں کامیاب ہو بھی جاؤں۔۔اور ہاں مجھے اب کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم شیو بناتے ہو کہ نہیں ۔

تم نے پاپڑی چاٹ کی بات کی۔۔تو وہ دوکان ساتھ والے بازار میں شفٹ ہو گی۔۔ اگر کبھی واپس لوٹوں تو بھٹکتے مت رہنا۔۔۔وہاں سے جا کر کھا لینا۔۔۔میٹھی چٹنی کم ڈلوانا۔۔۔
خط لکھنے والے احسان کا شکریہ!! وہ خطوں والی فائل میں جان بوجھ کر نہیں لے کر گئی تھی کہ شاید تم کبھی پڑھ لو۔۔لیکن تم نے ہمیشہ کی طرح مجھے مایوس ہی کیا۔۔۔کاش میں وہ فائل ساتھ لے گئی ہوتی!!!

تم کہتے تھے تم کبھی مجھے الوداع نا کہنا، لیکن آج بہتر یہی ہے کہ میں اپنے اس آخری خط کا اختتام “الوداع “کہنے سے ہی کروں۔
تعارف بوجھ بن جائے تو اسکو بھولنا اچھا ہوتا ہے ۔میں نہیں چاہتی کہ زندگی بھر میرے نام کی تلوار تمہارے سر پہ لٹکتی رہے اور بار بار تمہیں، ایک ایسے قصے کی یاد دلائے جسے بہت پہلے، تم تمہارے سائینٹفک دماغ کو کنٹرول کرکے جنک بکس میں پھینک دینا چاہئیے تھا۔

خدا حافظ ۔۔ آج کے بعد میری طرف سے تمہیں کبھی بھی کوئی خط نہیں ملے گا۔ الوداع !!

Advertisements
julia rana solicitors

وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دیکر چھوڑنا اچھا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply