لڑکپن کا عشق۔ منصور مانی

 

یاد نمبر 48

موم بتی کی مدہم   پھڑپھڑاتی پیلی روشنی میں  سامنے والی دیوار پر   ہم دونوں کے سائے ایک دوجے میں مدغم تھے! ہم مگر الگ تھے!کمرے کی دہلیز اور سیڑھیوں کی کگار پر وہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھیں اور میں ان کے پہلو سے جُڑا سامنے اپنے سائے کو دیکھ رہا تھا جو ہوا  کے جھونکوں کے ساتھ اپنی ہیت بدل رہا تھا! اُن کی وکالت کا آخری سال تھا اور میرا ،اسکول ختم ہونے میں ابھی چند برس باقی تھے! میں اُن کی ناک کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا، جس میں ممکنہ طور پر ایک چھوٹے سے ہیرے  کی لونگ موم بتی کی روشنی میں  نیلی شعاعیں بکھیر رہی تھی  میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ روشنی حسن سے ہے   یا ایک بے جان پتھر سے! مدہم سروں میں انہوں نے کوئی بات کہی  جسے میں ان سنی کر گیا، انہوں نے بہت نرمی سے میرے شانے کو پکڑ کر ہلایا، میں گویا ایک نیند سے جاگا ایک خواب تھا  جو  ادھورا رہ گیا ۔۔۔

نیچے سے اُن کی والدہ کی آواز آ رہی تھی جو ہم دونوں کو نیچے بلا رہی تھیں مغرب کا سمے تھا ہوا میں  خنکی تھی، مگر ماحول سرد مہر نہیں تھا۔۔۔!

یاد نمبر 117

یادش بخیر، مجھے یاد ہے بھادوں کا مہینہ تھا اور دن تھے ستمبر کے، عجب ستمگر سی راتیں تھیں ، پور پور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی محبت کی پیاس سے کُرلاتی ہوئی۔ کمرے میں موجود و واحد بان کی چارپائی پر لیٹے میں سگریٹ کا دھواں کمرے میں بکھیر رہا اور ایک جھنجھلاہٹ کے عالم میں اپنی ننگی کمر پر بان سے بننے والے نشانوں کو بے دردی سےکھجا رہا  تھا، سامنے دیوار پر لگا ساٹھ والٹ کا پیلا بلب اپنی زرد اور مایوس روشنی کے باجود اندھیرے میں سیندھ لگا چُکا تھا، کمرے میں ایک  ہولناک خاموشی گونج رہی تھی، جسے دروازے کی چرچراہٹ نے  ہیچ کر دیا،

میں نے   ایک نظر گھڑی کی سمت  ڈالی، پھر سوالیہ نظریں  دروازے کی سمت ڈالیں، جواب  میں کمرے کے بوسیدہ مگر صاف پردے کے پیچھے لکڑی کے کواڑ سے امی جان کا چہرہ نمودار ہوا، میں  گھبرا گیا، سگریٹ نوشی کی خبر امی جان کو تھی مگر  ایک حجاب تھا جو درمیاں تھا، امی نے ایک نظرمیں  کمرے میں چکراتے ہوئے دھویں کو محسوس کر لیا تھا،  کہنے لگیں، کالج میں آ جانے کا مطلب یہ نہیں، کہ  شُترِ بے مہار ہو جائیں، جس دن باپ کو اس  دھویں کی بھنک بھی پڑ گئی تو کھال اُتار دیں گے۔۔

میں   چُپکا پڑا رہا، امی چلی گئیں، میں نظریں نیچی کیے اُس لفافے کو گھور  رہا تھا جو لاہور سے آیا تھا، میں نے  جھک کر اس خط کو محسوس کرنا چاہا جو اُس لفافے میں  قید تھا،کہ میری ناک سے ایک ناگوار سی بُو ٹکرائی، میں نے غور سے لفافے کو دیکھا، لفافے پر   کئی جگہ  انگلیوں کے نشان تھے، جس میں سے اچار کی باس آرہی تھی، ڈاکیے نے  کھانے کے بعد ہاتھ دھوئے بغیر لفافے وصول کر کے اپنے تھیلے میں ڈالے ہوں گے، میرا جی  مکدر ہو گیا، خط کس کا تھا میں جانتا تھا، الفاظ کس قدر بے رحم ہونے والے تھے یہ مگر مجھے معلوم نہ تھا!۔۔۔۔۔۔

یاد نمبر  33

وہ مڑ کرکھڑی ہو چکی تھیں، سر کسی  ہونی کے بوجھ سے جُھکا ہوا تھا، ریشمی بال چھت پر لگے پنکھے کی گرم ہوا سے  کمر پر اٹکھیلیاں کر رہے تھے کمر کا بل اپنے پورے غرور کے ساتھ ریشم کے اس بوجھ کو سہار رہا تھا، کھڑکی سے آتی  بدمزاج سورج کی بے باک کرنیں ان کے چہرےسے ٹکرا کر سنہری ہو چلی تھیں ،  ناک میں پڑی ہیرے کی کیل سامنے والی دیوار پرعجب رنگ بنا رہی تھی، میں ایک  سحر کے عالم میں بیٹھا اپنی کاپی میں ایک ہی لفظ لکھے جا رہاتھا،دفعتاً  وہ  میری جانب مڑیں، اُن کے چہرے پر  پھیلی  مایوسی حدت سے تپ چکی تھی  گال کی گلابی مائل رنگت  قندہاری  ہو  رہی تھی  میں  نے ایک لمحے کے لیے اُن کی آنکھوں میں جھانکا، ویرانی اور اُمید سیاہ رنگ میں ڈھل چکی تھی،  پلکیں مایوسی کی راکھ تلے  بوجھل تھیں ، لب حسن کی تعظیم میں خاموش تھے ،مگر محبت گنگنا رہی تھی، میں حیران تھا، ویرانی مایوسی اور اُمید کیسے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں ؟

یہ   جون کی چلچلاتی ہوئی کوئی دوپہر تھی 87 کا سنہ تھا، مجھے گھر جانے کی جلدی تھی ،انگریزی کا سبق مجھے یاد ہو چکا تھا،مگر مجھے چھٹی نہیں مل رہی تھی! میں نے  اپنی پر اُمید آنکھوں سے اُن کی نااُمید آنکھوں میں ایک بار پھر جھانکا۔۔۔۔

دھیرے سے کہا!

کیا  میں جاؤں؟

انہوں نے   کہا ہاں  چھٹی کرو  کہ تمھیں سبق ابھی یاد نہیں!

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: احباب گزشتہ کچھ عرصے سے میرے بڑھاپے کا عشق پڑھ رہے ہیں، ساتھ میں لڑکپن  کا عشق بھی شروع کیا ہے   ، یہ وہ  دور تھا جب منصور ابھی مانی بننے کے مراحل میں تھا، اور  جذبے اور چیزیں کم و پیش خالص مل جایا کرتی تھیں۔ لڑکپن اور بڑھاپے کے عشق میں ایک چیز اہم رہی، اُس سمے دروازے بند نہیں ہوتے تھے اور اب دروازے بند ہو جاتے ہیں!

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply