• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • وبائی امراض :نماز جمعہ و مذہبی اجتماعات کی بندش اور اجتہاد کی بحث ۔اسلامی تعلیم کی روشنی میں دس راہنما اصول ۔۔۔انیس ندیم

وبائی امراض :نماز جمعہ و مذہبی اجتماعات کی بندش اور اجتہاد کی بحث ۔اسلامی تعلیم کی روشنی میں دس راہنما اصول ۔۔۔انیس ندیم

آج جبکہ کورونا وائرس جیسے مہلک اور متعدی انفیکشن نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ اس وباء کے پھیلاؤ کو روکنے میں معاشرتی فاصلے اختیار کرنے، عوامی اجتماعات سے اجتناب اور گھروں تک محدود رہنا ضروری قرار دیا جارہا ہے۔ اس موقع پر بعض علماء کا یہ اصرارکہ حکومتوں کی ہدایات اور احتیاط کی تلقین کے باوجود دینی احکامات، نماز جمعہ کے اجتماعات اور فرض نمازوں کے شڈیول میں ردو بدل ،گویا دینی معاملات میں مداخلت ہے ، نہ صرف یہ مؤقف ناقابل فہم بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیم اور رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ مبارک سے بھی نا آشنائی معلوم ہوتی ہے ۔اسی طرح بعض جگہ یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ وبائی امراض کے موقع پر نماز جمعہ اور فرض نمازوں کی صورت کیا ہو؟ گویا اس بارے میں علماء کے اجتہاد کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے ۔ لیکن   رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ مبارک اور آپ کی پیش فرمودہ پاکیزہ تعلیم کو محض سرسری نظر سے دیکھتے ہی یہ عقدہ بآسانی حل ہوجاتا ہے کہ ایسے مواقع پر کیا کرنا چاہیے۔۔ لیکن اجتہاد کی ضرورت محسوس کرنے والے احباب درج ذیل باتوں سے راہنمائی حاصل کرسکتے ہیں ۔

1۔ مسلمانوں کو اصولی تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اولی الامر(حکامِ وقت) کی اطاعت کریں ۔ پس دنیابھر میں پھیلے ہوئے مسلمان اس زریں اصول پر عمل پیرا ہوکر نہ صرف یہ کہ اچھے اور پُرامن شہری ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں بلکہ وباء کے پھیلاؤ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں ( سورة النساء آیت نمبر ۶۰)

2۔خانہ خدا یعنی بیت اللہ کی زیارت اور عبادت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف انداز میں’’ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا‘‘ فرماکر عبادت کے لئے امن وسلامتی کے ماحول کو ضروری قرار دیا ہے۔اس خوبصورت اصول کو موجودہ حالات پر اپلائی کرتے ہوئے امن وسلامتی کی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

3۔جنگ کی صورت میں فرض نماز کی ہیئت تبدیل ہوسکتی ہے اس سلسلہ میں فَإِن خِفتُم فَرِجالًا أَو رُكبانًا کے الفاظ میں نہایت نرم طرز تکلم اختیار فرمایا گیاہے کہ خوف کا وقت ہو تو خواہ چل رہے ہو یا سوارہو تو اس حالت میں بھی نماز قائم کی جاسکتی ہے۔سفر میں قصر کی سہولت عطا فرمائی گئی ہے تو کیا نہایت مہلک وباء کی موجودگی میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا درست نہیں ؟

4۔ نیز حج جیسی فرض عبادت بھی راستہ کے امن و سلامتی اور انسان کے محفوظ ومامون منزل مقصود تک پہنچنے سے مشروط ہے( مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا)تو کیا اس سے یہ سمجھ نہیں آتی ہے کسی وبائی آفت کے پھیلاؤ اور انسانی جانوں کی حفاظت کا معاملہ درپیش ہو تو عقل وشعور سے کام لینا چاہیے ؟

5۔مسافر اور مریض کی تکلیف کے پیش نظر روزہ سے استثناء مل سکتا ہے تو کیا ایک مہلک وباء کے پھیلاؤ کے پیش نظر احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری نہیں ؟

6۔آنحضور ﷺکا روز مرہ معمول تھا کہ شدید گرمی میں نماز کے اوقات میں سہولت کے پیش نظر ردو بدل فرمالیتے ۔آپ نے اس سلسلہ میں اصولی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اذا اشتدَّ الحرُّ فأبرِدوا بالصلاة یعنی جب گرمی کی شدت ہو تو نماز کو ٹھنڈے وقت پڑھ لیا کرو ( متفق علیہ)

7۔ آنحضور ﷺ  کے زمانہ مبارک میں بارش اور طوفان جیسی معمولی قدرتی آفت نے آلیا تو آپ نے گھروں میں نماز پڑھنے کا ارشاد فرمایا ۔(متفق علیہ) تو کیا مہلک وباء کی صورت میں ہلاکت کی راہوں سے بچنا ایک مؤمن کا فرض نہیں ؟

8۔آنحضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں بھی متعدی بیماریوں کا تصور موجود تھا ۔ ایک حدیث کے مطابق آنحضورﷺ نے وفدِ بنی ثقیف کے ایک شخص کے بارہ میں جو جذام میں مبتلاء تھےفرمایا «إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ فَارْجِعْ»یعنی دستور کے مطابق ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی بجائےہدایت فرمائی کہ آپ کی بیعت ہوگئی ہے ۔آپ (بے شک) واپس تشریف لے جائیں ۔ ( الجامع الصحیح للمسلم باب اجتناب المجذوم و نحوہ)

9۔جب کوئی مرض وباء کی صورت اختیار کرجائے یا ایسے خدشات ہوں کہ یہ بیماری ایک انسان سے دوسرے کو منتقل ہوسکتی ہے تو اس بارہ میں رحمتہ للعالمین ﷺ نے یہ راہنما اصول عطافرمایا ہے کہ:۔إذا سمعتم بالطاعون بأرض فلا تدخلوها وإذاوقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا منها یعنی جب تم کسی علاقے میں طاعون کے بارے میں سنو تو اس میں نہ جاؤ اور اگر کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اورتم اس میں ہو تو اس سے نہ نکلو۔ (متفق علیہ)

Advertisements
julia rana solicitors

10۔آنحضور ﷺ نے تومساجد کے ساتھ امن و عافیت کو مشروط کرتے ہوئے یہاں تک تعلیم بیان فرمائی ہے کہ کوئی نیزہ ، برچھی یا چبھنے والی چیز بھی مساجد میں لے کر نہ آؤ ۔ مبادا کسی کی آنکھ چبھ جائے ۔ تو کیا اس حدیث کی موجود گی میں ایسی بیماریوں کے ساتھ مساجد آنا جائز اور پسندیدہ ہے جس سے دوسروں کی جان کو خطرہ درپیش ہو۔(الجامع الصحیح للبخاری ۔ کتا ب الصلوة)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply