کراچی میں ایک علاقہ ہے جہانگیر روڈ، وہاں ایک بلوچ محلہ ہے، کراچی کے قدیم بلوچ اسے “کیاماسری” کے نام سے یاد کرتے ہیں ـ کہا جاتا ہے پہلے یہ علاقہ وہاں آباد تھا جہاں آج بانیِ پاکستان کا مزار ہے ـ مزار نے زندہ انسانوں کو اپنے ہی گھر میں ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا ـ ساجد حسین بھی مہاجر ہیں ـ
ساجد حسین لیکن تقسیمِ ہند کے مہاجر نہیں ہیں ـ وہ کیاماسری کے دیگر بلوچوں کی مانند کراچی کے قدیم لیکن نظرانداز شدہ باشندے بھی نہیں ہیں ـ
مند، مغربی بلوچستان (ایران) کی سرحد سے متصل کیچ مکران کا ایک پسماندہ قصبہ ہے ـ پورا بلوچستان پسماندہ ہے ـ ساجد حسین پسماندہ مند کے باشندے ہیں ـ ان کا خاندان چھوٹا موٹا زمین دار ہے اس لیے ان کی مالی حالت نسبتاً بہتر ہے ـ ب
ہتر سماجی حالات کی وجہ سے ساجد حسین پڑھ لکھ گئے ـ ان کا خاندان ہجرت کر کے کیاماسری، کراچی میں ایک فلیٹ میں آباد ہو گیا ـ زمانہِ طالب علمی میں وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رکن تھے ـ
سندھ اسمبلی بلڈنگ کے برابر میں عجائب گھر ہے ـ اس فضول عمارت کو عجائب گھر کیوں کہتے ہیں؟ ـ یہ میں آج تک سمجھ نہ سکا ـ 2008 کی سہ پہر ساجد حسین نے مجھ سمیت چند دوستوں کو اس عجائب گھر کے پارک میں بلایا ـ اس زمانے میں وہ بی ایس او کی سیاست سے کنارہ کش ہو کر انگریزی صحافت کر رہے تھے ـ میں بھی ایک اردو اخبار سے منسلک تھا ـ
میں اور کامریڈ رزاق سربازی لیاری سے وہاں پہنچے ـ کامریڈ رزاق سربازی بھی صحافی تھے ـ بلوچی زبان کے نوجوان ادیب تاج بلوچ ہم سے پہلے بمعہ ساجد حسین وہاں موجود تھے ـ
ساجد حسین نے ہمیں بتایا وہ ایک سہ ماہی سیاسی جریدہ شائع کرنا چاہتے ہیں ـ جریدے میں بلوچستان کے سیاسی و سماجی معاملات پر مختلف تناظر میں تجزیے شائع کیے جائیں گے ـ کیا بتانا ضروری ہے اس وقت بلوچستان جل رہا تھا؟ ـ آج بھی جل ہی رہا ہے ـ
ساجد حسین نے ہم سے قلمی تعاون کی درخواست کی ـ تاج بلوچ ایک منجھے ہوئے ادیب تھے ـ رزاق سربازی نہایت ہی پڑھے لکھے سینئر صحافی کی حیثیت سے جانے جاتے تھے ـ ساجد حسین ایک انگریزی روزنامے سے وابستہ تھے ـ ایک اور نوجوان کا ذکر بھی آیا ـ وہ لیاری کلری کے روشن فکر حکیم بلوچ تھے ـ
نوجوان حکیم بلوچ بعد میں پراسرار طور پر موت کی وادی میں گم ہو گئے ـ ان کی بے وقت موت تاحال معمہ ہے ـ
بہرکیف، ان علما کے درمیان صرف میں ہی تھا جسے جاہل قرار دیا جا سکتا ہے ـ دو گھنٹے کی گفت و شنید میں سہ ماہی جریدے کی اشاعت کے ہر پہلو کو کھنگالا جاچکا تھا ـ ہم لوٹ آئے ـ
ساجد حسین اپنی کوششوں میں لگ گئے ـ بلوچستان کی تیزی سے بدلتی صورت حال نے ان کی اس علمی کوشش پر پانی پھیر دیا ـ اپریل 2009 کو ان کے ماموں اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے بانی سربراہ غلام محمد بلوچ پہلے جبراً لاپتہ ہوئے پھر مسخ لاش کی صورت بازیاب ہوئے ـ
اس سانحے کے بعد جبری گمشدگیوں اور مسخ لاشوں کا لامختتم سلسلہ شروع ہو گیا ـ جبری گمشدگیوں کے نشانے پر سب سے زیادہ پرامن سیاسی کارکن اور قلم کار تھے بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا پرامن تعلیم یافتہ سیاسی کارکن اور باشعور قلم کار ہیں ـ قتال کے اس خوف ناک سلسلے نے متعدد نوجوانوں کو جبری ہجرت کی جانب دھکیل دیا ـ
ساجد حسین کراچی چھوڑ گئے ـ وہ ایک دفعہ پھر مہاجر بن گئے ـ خلیج اور افریقہ کی خاک چھانتے چھانتے سویڈن پہنچ گئے ـ رزاق سربازی اور تاج بلوچ ان سے پہلے سویڈن کی پناہ میں تھے ـ سویڈن پہنچ کر وہ پھر کوچہِ صحافت کی سیاحت میں لگ گئے ـ انھوں نے انگریزی اور بلوچی زبانوں میں ایک نیوز ویب سائٹ لاؤنچ کر دی ـ
بلوچی زبان پر تحقیق کا راستہ بھی اختیار کر لیا ـ ان کے مضامین گاہے بگاہے اردو ترجمہ کی صورت مختلف بلوچ ویب سائٹس کی زینت بننے لگے ـ فکشن سے ان کو خاص لگاؤ تھا اس لیے ان کے سیاسی مضامین میں ادب کی چاشنی بھی بدرجہِ اتم موجود ہے ـ
اب اچانک اطلاع آ رہی ہے ساجد حسین 02 مارچ 2020 سے لاپتہ ہیں ـ فی الوقت کوئی نہیں جانتا وہ جبری طور پر گمشدہ کیے گئے ہیں یا کوئی اور معاملہ ہے ـ سویڈن جیسے نسبتاً پرامن ملک میں ایک بلوچ صحافی کا لاپتہ ہونا بلاشبہ قابلِ تشویش ہے ـ
ساجد حسین کی گمشدگی سے کوئی فرق پڑتا ہے؟ ـ پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی حدود میں رہنے والے بیشتر افراد کے لیے ان کی گمشدگی کوئی اہمیت نہیں رکھتی ـ آخر کوئی اہمیت دے بھی تو کیوں دے؟ ـ رہے بلوچ ؛ گمشدگی بلوچوں کی اجتماعی زندگی کا حصہ بن چکا ہے ـ بلوچ محض ایک سوال ہیں:
کیا آپ ساجد حسین کو جانتے ہیں؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں