سیاسی وڈیرے۔۔عزیز خان

جیل میں اور حوالات تھانہ کوتوالی میں 42دن گزارنے کے بعد میری تعیناتی سکیورٹی برانچ بہاولپورکردی گئی جہاں میاں عرفان اللہ سب انسپکٹر انچارج تھے۔میاں عرفان اللہ بہت سمجھدار پولیس آفیسر تھے انھیں میری ذہنی کفیت کا بھی اندازہ تھا لہذا میرے ذمہ کوئی سخت ڈیوٹی نہ لگائی گئی میں اپنی مرضی سے روزانہ احمد پور شرقیہ سے بہاولپور آتا۔ ڈیوٹی کر کے شام کو واپس احمد پور شرقیہ چلا جاتا تھا۔ سکیورٹی برانچ میں دو مہینے بڑے آرام اور سکون سے گزر گئے۔

ایک دن مجھے SSPخواجہ خالد فاروق نے بلوایااور بولے کہ آپ اچھے پولیس آفیسر ہیں خود کو ضائع نہ کریں زندگی میں اچھے اور برے حالات و واقعات آتے رہتے ہیں ان کا زیادہ اثر نہیں لینا چاہیے۔ میں آپکا تبادلہ تھانہ خیرپور ٹامے والی کر رہا ہوں۔ آپ کل جاکر تھانہ میں حاضری کریں اور تفتیش سیکھیں۔میں حیرت سے ان کے چہرہ کی طرف دیکھ رہا تھا کہ کچھ ماہ قبل کس طرح انھوں نے مجھے تھانہ کوتوالی کے حوالات میں بند کروایا۔ میری کوئی بات ماننے کو تیار نہ تھے بلکہ رات کو اچانک تھانہ کوتوالی میں آجایا کرتے تھے اور چیک کرتے تھے کہ میں اور میرے ساتھ بند ملازمین کو حوالات سے باہر تو نہیں نکال دیا گیا اور ہم لوگ باہر تو نہیں سو رہے۔

اگلے دن میں تھانہ خیر پور ٹامے والی حاضری کے لیے روانہ ہوگیا۔خیرپور ٹامے والی بہاولپور سے بہاولنگر جانے والی روڈ پرواقع ہے۔ اسے دیہاتی تھانہ کہا جاتا تھا۔ میرا وہاں جانے کو بالکل دل نہیں کررہا تھا۔کئی دفعہ سوچا رخصت لے لوں مگر SSPخواجہ خالد فاروق کی سخت گیر طبیعت کے ڈر سے بحالت مجبوری حاضری کرنا پڑی۔اُن دنوں تھانہ خیرپور ٹامے والی میں محمد علی گِل سب انسپکٹر SHOتعینات تھا۔ محمد علی گِل جوکہ ایک روایتی تھانیدار تھا آفس میں بیٹھ کر حقہ پینا، دھوتی باندھنااُن کا معمول تھا۔یونیفارم بھی بہت کم پہنا کرتے تھے۔

وہیں میری ملاقات میاں ریاض پیرذاہMNAکے والد میاں شاہنواز پیرزادہ سے ہوئی جن کا شمار تھانہ خیرپور ٹامے والی کے بڑے زمینداروں میں ہوتا تھا۔میاں شاہنواز ڈبہ بھی کمال آدمی تھے ہمیشہ دھوتی کُرتا پہنا کرتے تھے۔ جب بھی اپنی جیپ پر تھانہ آتے تھے توپولیس ملازمین میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ جیسے ہی وہ تھانہ کی عمارت میں داخل ہوتے سب سے پہلے وہ سنتری سے ملتے تو اس کو کچھ پیسے دیتے پھر ایک ایک کرکے وہ سب تفتیشی افسروں کے کمروں سے ہوتے ہوئے محرر کے کمرہ میں آتے پھر محرر کو بھی انعام دیتے۔ان کے تھانہ میں داخل ہوتے ہی یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کوئی پیر صاحب تشریف لائے ہوں۔پھر وہ جلوس کی شکل میں SHOکے کمرہ میں آتے تھے۔محرر تھانہ ان کے لیے کرسی کھنچ کررکھتاتھا اور وہ ایک شان بے نیازی سے کرسی پر بیٹھ جایا کرتے۔حالانکہ میاں شاہنواز ڈبہ کے خلاف اسی تھانہ پر مقدمات تھے جنھیں وہ سیاسی مقدمات قرار دیتے تھے۔ایسا منظر میں نے اپنی ملازمت میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

میاں شاہنواز پیرذاہ کا خاندان تھانہ خیرپور ٹامے والی میں کافی زیادہ اثررسوخ رکھتا تھا۔ ان کی سیاسی چپقلش گردیزی خاندان کے ساتھ تھی۔جس کام میں گردیزی آتے تھے پیرذادے بھی دوسری پارٹی کی طرف سے آنااپنا فرض سمجھتے تھے اور ہر مقدمہ سیاسی بن جایا کرتا تھا۔

میاں ظفر پیرذادہ جوکہ میاں شاہنواز پیرذادہ کا داماد تھا اکثر تھانہ پر آتا اوراپنے کام کرواتا تھا۔ایک دن مجھے SHOمحمد علی گِل نے ایک درخواست دی جس میں ایک شخص پر بکریاں چوری کرنے کا الزام تھا اوراس کو پکڑنے کے لیے مجھے کہا گیا۔چنانچہ درخواست دہندہ ایک زمیندار کی جیپ لے کرتھانہ پر آگیااُن دنوں تھانہ کی سرکاری گاڑی نہیں ہوا کرتی تھی۔میں نے بڑی مشکل سے دریائی علاقہ میں جاکر ملزم کو پکڑا اور اسے تھانہ پر لے آیا۔تھانہ پر پہنچتے ہی جب میں نے اُس سے بکریوں کی چوری کی بابت دریافت کیا تو وہ اس نے چوری کرنا تسلیم کیا اور برآمدگی کا وعدہ بھی کرلیا۔ابھی میں تفتیش کرہی رہا تھاکہ میاں ظفر پیرذاہ تھانہ پر آگئے اور مجھے اُس چور کو چھوڑنے کا کہا جس پر بکریاں چوری کرنے کا الزام تھا۔ ساتھ میں مجھے ایک ہزار روپے کی آفر بھی کی اور کہا کہ ایک ہزار لے لیں اور ملزم کو چھوڑ دیں۔میں نے انھیں سختی سے انکار کیا اور اُنھیں بتایا کہ یہ ملزم بکریاں چوری کرنا تسلیم کرچکا ہے اب بس اس سے برآمدگی کرنی ہے۔اس پر میاں ظفر پیرزادہ ہنستے ہوئے بولے چلیں یہی بندہ میں آپکے SHOسے پانچ سوروپے میں چھڑوا لوں گا۔ میں نے کہا میاں صاحب یہ ہو ہی نہیں سکتا۔اس پر میاں ظفر پیرذاہ اُٹھ کر چلے گئے۔

میں ابھی تھانہ پر موجود ہی تھا کہ تھوڑی دیر بعد محرر تھانہ راناحفیظ نے میرے کمرہ میں آکر بتایا کہ SHOصاحب آپکو اپنی رہائش گاہ پر بلا رہے ہیں۔مجھے تھانہ خیرپور ٹامے والی آئے ہوئے تقریباایک مہینہ ہوچکا تھا۔لیکن میں کبھی SHOکے گھر نہیں گیا تھا۔SHOنے تھانہ سے ایک فرلانگ دور ایک محلہ میں گھر کرایہ پر لیا ہوا تھا۔میں پیدل چلتاہوا SHOکے گھر کے باہر پہنچ گیا۔گھر کے باہر میاں ظفر پیرزادہ کی جیپ بھی موجود تھی میرا ماتھا ٹھنکا اور میں سمجھ گیا کہ میاں ظفر کی شکایت پر ہی مجھے SHOنے بلوایا ہے۔میں نے SHOکی رہائش گا ہ کے دروازہ پر دستک دی تو اندر سے آواز آئی ۔۔آجاؤ۔۔۔میں گھر کے اندر داخل ہوگیا۔ SHOشایدگھر پر اکیلا رہتا تھاگھر کے اندرداخل ہوتے ہی مرغیوں کے شور نے میرا استقبال کیا اندر دو تین ڈربے بنے تھے جن میں 40/50مرغیاں بند تھیں اور صحن میں 4/5بکرے بھی بندھے ہوئے تھے SHOصاحب صحن میں دھوتی باندھے چارپائی پربیٹھے ہوئے تھے ان کے سامنے ایک حقہ پڑا ہوا تھا اور وہ بڑی شان بے نیازی سے حقہ کے کش لگا کر دھواں نکال رہے تھے۔ساتھ ہی میاں ظفر پیرذاہ بھی ایک موڑھا پر برجمان تھے۔SHOنے مجھے کہا خان صاحب اسکو وہ ملزم دے دیں جو آپ پکڑکرلائیں ہیں۔میں نے کہا سر! وہ چور ہے ابھی تومیں نے اس سے کچھ پوچھا بھی نہیں اور وہ بکریاں چوری کرنا تسلیم کررہا ہے اس سے اور بھی چوریاں برآمدہوسکتی ہیں۔اس پر SHO صاحب نے مجھے گھورتے ہوئے کہا “خان صاحب تسی میرے تو زیادہ کچھ نہیں جاندے،بندہ اہنا دے حوالے کردیو” اسی دوران میاں ظفر نے اپنی جیب سے سو سو روپے کے پانچ نوٹ نکالے اور میرے سامنے SHOکودیئے۔ SHOصاحب نے پانچ سو لے کر اپنے پرس میں رکھ لیے۔میاں ظفر پیرذاہ نے
عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا جس میں روایتی تھانہ کلچر کے بارے میں ایک پیغام بھی تھاکہ کس طرح علاقہ کے زمیندار چوروں اور بدمعاشوں کی پشت پناہی کرتے ہیں اور کس طرح پولیس آفسران چند ٹکوں کی خاطر ان کو چھوڑ دیتے ہیں۔ بعد میں میں بھی شاید اسی سسٹم کا ایک حصہ رہا لیکن میں نے اپنی ملازمت کے دوران کبھی بھی کسی چور کے ساتھ رعایت نہ کی جس کی گواہی میرے ساتھ ملازمت کرنے والے آفسران و ماتحتان دے سکتے ہیں۔

میں شرمندہ سا واپس تھانہ پر آگیا اورمحر ر کو کہا میاں ظفرآئے گا چوری والا ملزم ان کے حوالے کردینا۔تھوڑی دیر بعد میاں ظفرپیرزادہ بھی تھانہ پر آگئے اور مجھے کہنے لگے خان صاحب آپ اس محکمہ میں نئے ہیں آہستہ آہستہ سب سمجھ جائیں گے ہماری بھی مجبوری ہے ہم سیاسی لوگ ہیں اور ووٹوں کی خاطر مجبوراََ ان کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔میں نے انھیں کوئی جواب نہیں دیا میں بہت دل برداشتہ تھا۔میں اٹھا اور اپنے گھر چلا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگلے دن جمعتہ المبارک تھا۔تھانہ کے ساتھ ہی “حضرت خواجہ خدا بخش صاحب ؒ”کا مزار تھا جس سے ملحقہ مسجد بھی تھی۔جمعہ کی آذان کے بعد میں بھی مزار پر چلا گیا میں نے وضو کیا اورمزار پر فاتحہ پڑھی اس کے بعدجمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں چلا گیا۔ نماز پڑھتے ہوئے میرا دل بھر آیا اور میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکلنا شروع ہوگئے میں نے اللہ سے دعا کی “یااللہ میری مدد فرما میں تھانہ خیرپور ٹامے والی سے میری جان چھڑوا “نماز کے دوران ہی بڑی تیز اندھی آئی جس سے مسجد کے شامیانے اڑگئے تھوڑی دیر
بعد شدید بارش ہوئی۔مغرب کی آذان کے بعد راناحفیظ محر ر نے مجھے کہا کہ خان صاحب کھانا کھانے اڈا خیرپور ٹامے والی چلتے ہیں۔اڈا تھانہ سے تقریباََ پانچ کلومیٹر دورمین روڈ پر تھا۔ تھانہ کے قریب کوئی ایسا ہوٹل نہ تھا جس پہ پولیس ملازمین کھانا کھاتے نہ ہی تھانہ پر کوئی میس کا انتظام تھا۔ملازمین اکثر اڈے پر کھاناکھانے ہی جایا کرتے تھے میں نے اپنا ہنڈا 125موٹر سائیکل نکالا رانا حفیظ موٹر سائیکل پر میرے
پیچھے بیٹھ گیا۔ تھانہ سے تقریباََ 1کلومیٹر دور راستے میں ایک قبرستان آتا تھا اوروہیں سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔
موسم بہت اچھا تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔قبرستان کے درمیان کچی سڑک سے گزرتے ہوئے اچانک موٹرسائیکل کی روشنی میں مجھے ایک بل کھاتاسانپ نظر آیا میں نے فوری طور پر موٹرسائیکل کی بریک ماری مگر اسی دوران میرے موٹرسائیکل کا اگلا پہیہ سانپ کے اوپرسے گزر چکا تھا۔میں نے موٹرسائیکل روک دیا اور موٹرسائیکل کی روشنی میں ادھر اُدھر سانپ کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن سانپ مجھے کہیں نظر نہ آیا۔ رانا حفیظ بولا خان صاحب لگتا ہے کہ سانپ بھاگ گیا ہے۔ ہم دونوں دوبارہ موٹر سائیکل پر بیٹھ گئے اور اڈہ کی طرف روانہ ہوگئے۔تقریباََ آدھا فرلانگ سفر ہی کیا ہوگا کہ اچانک ہنڈا 125کے دونوں میٹروں کے درمیان سے سانپ پھن پھیلائے نکل کرمیرے سامنے آگیا۔میں زور سے چیخا “حفیظ سانپ”کیوں کہ موٹرسائیکل کی رفتار آہستہ تھی حفیظ جلدی سے چھلانگ مار کراتر گیا میں نے بھی موٹرسائیکل کا ہینڈل چھوڑ دیا۔ موٹرسائیکل نیچے گرا اور بند ہو گیا۔موٹر سائیکل کے بند ہوتے ہی ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔اندھیرے میں ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہم کیا کریں۔ اچانک دور سے ہمیں ایک گاڑی کی روشنی نظر آئی جو ہمارے قریب آکر رک گئی۔یہDSPحاصلپور کی سرکاری جیپ تھی جسکو ڈرائیور محبوب بلوچ چلا رہا تھا۔جس کا سسرال تھانہ کے ساتھ تھا۔جیپ کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ سانپ اسی طرح پھن پھیلائے موٹر سائیکل کے میٹروں کے درمیان میں موجود تھا۔محبوب بلوچ کو پہلے تو کچھ سمجھ نہ آیا۔جب میں نے اسے چیخ کر سانپ کے بارے میں بتایا تو اس نے فوری طور پر جیپ کے پیچھے سے ڈانگ نکالی اورزور سے سانپ کے پھن پر ماری اتنی دیر میں ہم نے اور رانا حفیظ نے بھی پاس سے کچھ انٹیں ڈھونڈ لیں اور ہم نے مل کر سانپ کو مار دیا۔کچھ دیر تک میں سہما رہا اس دن مجھے معلوم ہوا کہ” سانپ اور چور کا ڈر واقعی کیوں مشہور ہے۔” رانا حفیظ نے مجھے کہا خان صاحب سانپ کو دفن کردیتے ہیں کیونکہ مادہ سانپ آکر اسکی آنکھوں میں مارنے والے کی تصویر دیکھتی ہے اور اسکی جان کی دشمن ہوجاتی ہے۔ میرے ذہن میں فوری طور پر انڈین فلم ناگن کا خیال آیا اور قریب ہی گڑا کھود کر ہم نے سانپ کو دفن کردیا۔ اگر سانپ باہر پڑا رہتا اور ناگن اس کی آنکھوں میں دیکھتی تو میری تصویر سب سے زیادہ واضح ہوتی کیونکہ سانپ موٹر سائیکل کے دونوں میٹروں کے درمیان سے نکل کر میرے سامنے ہی آیا تھا۔
اگلے دن صبح دس بجے SSPٓٓآفیس سے وائرلیس موصول ہوئی کہ میرا تبادلہ خیرپور ٹامے والی سے بطور ٹریفک سارجنٹ بہاول پور ہوگیا تھا۔ ان دنوں ٹریفک سارجنٹ بہاولپور ایک ASIہوتا تھا۔جوپورے ضلع کا انچارج ہوتا تھا اور یہ پوسٹنگ ایک اعزاز سمجھی جاتی تھی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کے میری محمد علی گِل SHOسے جان چھوٹی اورسانپ کا مارنا میرے لیے مبارک ثابت ہوا۔ میں نے اسی دن ہی بہاولپور بطور ٹریفک سارجنٹ حاضری کرلی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply