میں روز آذان دیتا ہوں
دل روز دہل سا جاتا ہے
دل روز بہل بھی جاتا ہے
ان بے وقت آذانوں کو
اپنے بے وقت نمازی کے
نور کی پہلی کرن
کے ابھرنے کا انتظار ہے
چاروں اور سنسا ر ہے
سنسار بھی اجھاڑ ہے
خوف کی سسکیوں سے
روحیں سہم سی جاتی ہیں
ہر سو اک سناٹا ہے
دل بیٹھا جاتا ہے
جسم کے ہیں قافلے
روحوں کے سنگ چلے جیسے
اک آسمان کو جاتی ہے
دوسری لحد سجاتی ہے
خوف کی سسکیوں سے
زندگی پناہ چاہتی ہے
میں روز آذاں دیتا ہوں
دل دہل سا جاتا ہے
آج ایک ہچکی نے
سرگوشی سی کی ہے
یوں۔۔
یوں کہ جیسے کہتی ہو
فضائیں بھی اداس ہیں
رات نے نہیں ٹلنا
اندھیرے نے گرہیں باندھیں ہیں
سورج نے بھی ٹھانی ہے
میں نے اب نہیں اُبھرنا
جب تک کسی کعبے پر
کسی بلال نے نہیں چڑھنا
اے بلال
تجھ کو پکارے ہے
میرے غرور کا فرعون جیسے
آ،زمیں پہ آجا ،آج
کہ۔۔
سورج نے ٹھانی ہے
خالق کی خدائی منوانی ہے
آذانِ بلال سنانی ہے
غرور کی قبر بنوانی ہے
دل دہل سا جاتا ہے
دل کو بھی سہلانا ہے
بلال کو واپس بلانا ہے
اشرف گر کہلانا ہے
میں
روز آذان دیتا ہوں
دل دہل سا جاتا ہے
دل دہل سا جاتا ہے
اے بلال
آ،زمین پہ آ جا ،آج!
Facebook Comments
فکر انگیز