مسٹر پی فرام اٹلی اور ہماری ہٹ دھرمی۔۔محسن علی خان

رمینی، اٹلی کا ایک خوبصورت سیاحتی شہر ہے۔ فضاء میں خوشبو بکھیرتے ہوۓ رنگارنگ پھول، چہار سُو سبزہ، دریا کے پانی کی پرسکون روانی، اور رومن ایمپائر کی بہت سی یادگار نشانیوں کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاح اس شہر میں کھینچے چلے آتے ہیں۔

مسٹر پی، 1919 کو اس شہر میں پیدا ہوا۔ پورا شہر اُس وقت ایک وائرس کے خوف سے سہما ہوا تھا۔ اسپینش انفلوائنزہ موت بن کر ہر دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ تب تک چار لاکھ اطالوی باشندے اس وائرس کا شکار ہو کر مر چکے تھے۔ یہ وائرس جاتے جاتے اور دو لاکھ افراد کو نگل گیا۔ کُل مِلا کر چھ لاکھ اٹالین اس وائرس کے آگے اپنی زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ مسٹر پی بچ جانے والے خوش نصیب افراد میں شامل تھا۔ مسٹر پی اپنی زندگی کے نشیب و فراز طے کرتے ہوۓ، بھوک،کیمونسٹ اور فاشسٹ انقلاب، تکالیف، اور جنگ عظیم دوئم کی تباہ کاریوں سے بچتے ہوۓ بالآخر ایک سو ایک سال بعد کرونا نامی وائرس کا شکار ہو کر انفرمی ہسپتال، رمینی میں داخل ہوا۔ ہسپتال کا عملہ مسٹر پی کی عمر اور امیونٹی سسٹم کی کمزوری کو مدنظر رکھ کر علاج میں جت گیا۔ لیکن مسٹر پی نے ہمت نہیں ہاری، اور کرونا وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا۔ اس طرع مسٹر پی، چائنہ کی مسسز زاہان گناگفن کے بعد دوسرا مریض تھا جوسو سال سے زیادہ عمر ہونے کے باوجود اس وائرس کے حملہ میں سروائیو کر گیا۔ ان دونوں مریضوں کے بچ جانے کی جو سب سے بڑی وجہ سامنے آئی وہ ان کی زندہ دلی اور جینے کی تمنا تھی جس نے موت جیسے کرونا وائرس کو بھی شکست دی۔

اب اگر ہم پاکستان بمقابلہ ستر سال کے حالات کا جائزہ لیں تو ہم محسوس کریں گے کہ بحیثیت قوم ہم لوگوں نے ان گزرے ہو سئے تر سالوں میں بہت بڑی بڑی مصیبتوں کا ڈٹ کر سامنا کیا ہے۔ خواہ وہ آسمانی آفات ہوں یا دشمن کی طرف سے ہوں یا ہماری اپنی ہی پیدا کی ہوئی ہوں۔ آپ جنگ کے حالات میں عوامی ردعمل کی بات کر لیں۔ ہمارے جن بزرگوں نے وہ وقت دیکھا آپ ان کا جذبہ ملاحظہ کر لیں، سانحہ مشرقی پاکستان کا غم صبر سے برداشت کرنے کا وقت دیکھ لیں، آپ دہشتگردی کے خلاف لڑی جنگ میں ہماری قوم کا ردعمل دیکھ لیں۔ اس قوم نے ستر ہزار سے زیادہ لاشیں اٹھا لیں، آۓ روز خودکش حملہ آوروں کو اپنے سینے سے لگا کر روکتے رہے۔ لیکن دشمن اس قوم کو محصور نہیں کر سکا۔ آپ سیلاب، زلزلہ جیسی آفات کا مقابلہ کرتے ہوۓ اس قوم کو دیکھ لیں۔
دراصل ہم اجتماعی طور پر اب نڈر ہو چکے ہیں۔ اب ہم اپنے آپ کو اس درجہ پر فائز کر بیٹھے ہیں جہاں ہم سوچتے کہ اب کوئی بھی مصیبت آۓ گی تو ہم اس پر مٹی ڈال دیں گے۔ لیکن یہ ہماری خوش فہمی کی انتہاء ہے جو کہ غلط فہمی میں تبدیل ہونے میں صرف چند سیکنڈ لے گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ زندہ دل قوم ہونے کی وجہ سے ہمارا امیونٹی سسٹم بہت حد تک بہتر ہے لیکن اب یہ وقت اپنا امیونٹی سسٹم کرونا وائرس سے لڑا کر چیک کرنے کا نہیں، یہ تجربہ ہمیں پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھنا چاہیے ۔ اب وقت ہے اپنی ریاست کو اس وائرس سے پاک کرنے کا اور اس کے لئے حاکم وقت کی طرف سے جاری کی گئی ہدایات پر عمل کرنے کا ہے۔

اب کرونا جیسی وباء میں ہمارا رویہ دیکھ لیں۔ حکومت ہمیں اب گھر میں روکنا چاہ رہی لیکن ہم باہر نکلنے پر تلے ہوۓ ہیں۔ ہم پولیس کی لاٹھیاں بھی کھا رہے لیکن اپنی ضد بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہو رہے۔ ہم نے یہ سوچ لیا ہے کہ یہ وائرس امت مسلمہ کے خلاف یہودی سازش ہے اور ہم اس سازش کا مقابلہ باہر نکل کر اس وائرس سے ہاتھ ملا کر اور گلے لگا کر کریں گے۔ پوری دنیا اس وقت سر جوڑ کر اس وائرس کو روکنے کے لئے اینٹی بائیوٹک بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ دوسری طرف ہم صرف تین دن گھروں میں رہ کر حکیم لقمان بن چکے ہیں اور وائرس سے نجات کے لاکھوں نسخے سوشل میڈیا پر پھیلا چکے ہیں۔ گلی محلوں میں ٹولیوں کی صورت میں اس بات پر بحث مباحثہ جاری ہے کہ اذانیں دینا جائز اور شریعت ہے یا بدعت ہے۔

اب ہم اپنے پیارے وطن پاکستان کو اٹلی بننے سے بچا سکتے ہیں۔ پاکستان میں کرونا وائرس اپنی انکیوبیشن کا ٹائم پورا کر چکا ہے۔ اس کا دورانیہ 14 دن کا ہوتا ہے۔ اب آج یعنی کے 28 مارچ سے زندگی اور موت کا فیز شروع ہو رہا ہے۔ کیونکہ پچھلے دو ہفتوں میں اگر یہ وائرس جسم میں موجود تھا تو اس کی علامات اپنی مکمل شکل میں ظاہر ہو جانی ہے۔ اب وہ وقت ہے جن ہم مکمل طور پر اپنے آپ کو گھروں میں قید کر لیں، تاکہ یہ نہ ہو ہم باہر سے خود موت خرید کر اپنے گھر کے افراد میں بانٹ دیں۔ اگلے دو ہفتے انتہائی احتیاط کے ہیں۔ یہ اس جنگ کا فائنل راؤنڈ ہے، اگر ہم ان آنے والے دو ہفتوں میں اس وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے تو سمجھیں ہم نے کئی نسلوں کو بچا لیا ہے۔

اٹلی میں یہی غلطی ہوئی کہ جب وائرس اپنی مدت پوری کر کے ظاہر ہوا تو لوگوں نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا اور اپنے روزمرہ کے کام اور میل جول جاری رکھا، جس کے نتیجہ میں ایک بہت بڑی تعداد متاثر ہو گئی اور نتیجہ لاشوں کی صورت میں سامنے آیا، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

مولانا رومی فارٹی رولز آف لو(forty rules of  love)میں فرماتے ہیں۔“ ہم خدا کے بارے میں جو گماں رکھتے ہیں وہ دراصل ہماری اپنی شخصیت کے بارے میں ہمارے گماں کا ایک عکس ہوتا ہے اگر خدا کے  Zکر سے ذہن میں محض الزام اور خوف ہی ابھرے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ خوف اور الزام تراشی ہمارے اپنے سینے کی اس گھٹن میں پنپ رہی ہے، اور اگر خدا ہمیں محبت اور شفقت سے چھلکتا ہوا دکھائی دے تو یقیناً ہم بھی محبت اور شفقت سے چھلک رہے ہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors

آئیں ہم سب اس رُول کو فالو کرتے ہوۓ، اس کائنات کے مالک پر اس بات کا یقین رکھیں کہ وہ پاک ذات جس نے اس دنیا کو متعدد موذی امراض اور وائرس سے نکالا اور صحت یاب کیا وہ پاک ذات،حفاظت کرنے والی ذات ہمیں بھی بہت جلد اس مشکل سے نجات دے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply