• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پانچواں دن)۔۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پانچواں دن)۔۔۔گوتم حیات

آج میں اپنی ڈائری کی پانچویں قسط لکھ رہا ہوں۔ اس وقت میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا میں اس قسط کو مکمل کر سکوں گا۔۔۔ میرے پاس نہ تو لکھنے کے لیے الفاظ ہیں اور نہ ہی میرا دماغ اس بات کے لیے آمادہ ہے۔ عجیب کشمکش کا شکار ہوں، اس لمحے میں اپنے دل کا کہا مانتے ہوئے خود کو لکھنے کے عمل کی جانب دھکیل رہا ہوں۔
کراچی میں جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے اب نہ مجھے دن ڈھلنے کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہی رات بیتنے کا احساس۔ میں بہت کاہل سا ہو گیا ہوں، زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں بستر پر دراز رہتا ہوں۔ میرے چاروں طرف ہزاروں کتابوں کا انبار ہے مگر میں ان کو چھونے کی جسارت نہیں کرتا۔۔۔ بستر پر لیٹے لیٹے صبح سے شام اور شام سے صبح ہو جاتی ہے۔ معمول کے دنوں میں یہ میری عادت تھی کہ کوئی نہ کوئی کتاب تھکاوٹ کے باوجود پڑھ لیا کرتا تھا مگر اب تو ان لاک ڈاؤن کے دنوں میں سکون کی ایسی طویل گھڑیاں ملیں ہیں کہ کسی کام کو کرنے میں دل نہیں لگتا اور میرے لیے تو کتاب کا مطالعہ کرنا بھی ایک اہم کام ہے جس کو میں ان کرب ناک دنوں میں جاری نہیں رکھ سکتا۔ اتنی بےچینی میں کتاب کے صفحوں پر اپنی توجہ مرکوز کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ یہی سبب ہے کہ میں کتابوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی کتابوں سے کوسوں دور اور لاتعلق سا ہو گیا ہوں۔
گزشتہ رات میری بہن صائمہ نے مجھے کال کر کے بتایا کہ “ڈان نیوز میں اس کو پروگرام “زرا ہٹ کے” میں اٹلی میں کرونا کی موجودہ صورتحال پر چند منٹ کے اظہار خیال کے لیے آن کال لیا جائے گا۔” ہم سب گھر والے صائمہ کو ڈان نیوز پر دیکھنے کے لیے بے فکری سے ٹی وی والے کمرے میں جمع ہو گئے۔ جب سے پاکستان میں کرونا کی وباء پھیلی ہے اس وقت سے ہم ایک ہی جگہ گُھل مل کر بیٹھنے سے اجتناب برت رہے ہیں لیکن صائمہ کو ڈان نیوز پر دیکھنے کی خواہش میں ہم گھر والوں نے کل رات ایک ہی جگہ ڈیرہ جما لیا تھا۔ صائمہ گزشتہ تین سالوں سے اٹلی میں مقیم ہے۔ کرونا کی وجہ سے اٹلی میں لوگ پچھلے پچیس دنوں سے مکمل لاک ڈاؤن میں اپنے اپنے گھروں میں محصور ہیں۔ صائمہ کو ٹی وی پروگرام میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے دیکھ کر ہم سب بہت ایکسائٹڈ ہوئے۔ اُس کو سنتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اس وقت پاکستان نے کرونا کی وجہ سے ملکی اور بین الاقوامی پروازیں منسوخ کر رکھی ہیں۔ لیکن ڈان نیوز کے اس پروگرام کے توسط سے صائمہ پاکسان میں پہنچ چکی ہے۔ یہ ہے نا کتنا خوبصورت احساس کہ صائمہ نے ٹی وی پروگرام کی صورت میں تین سال بعد پاکستان کی سرزمین پر گزشتہ شب قدم رکھا۔
کرونا وائرس کی وجہ سے ملک بھر میں اب تک دس افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور تقریباً بارہ سو پچاس سے زائد افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ اس وقت یہ تمام مریض کٹھن علاج کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔
شہر میں جاری لاک ڈاؤن نے معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سی ایسی پوسٹس گردش میں ہیں جن میں غریب شہریوں کے لیے امدادی راشن کا تقاضہ کیا جا رہا ہے۔ کچھ تصاویر میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ایسے ضرورت مند لوگوں کے لیے راشن کے تھیلے جمع کر کے بانٹ رہے ہیں۔ حکومتی سطح پر لوگوں کی امداد کے لیے بلند بانگ دعوے کیے جارہے ہیں۔ ایسی خبریں بھی ٹی وی ہر نشر ہو رہی ہیں جن میں عوام کو حکومت کی طرف سے ریلیف راشن فراہم کیے جانے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ کاش کہ غریب عوام کے پاس یہ راشن جلد پہنچ سکے۔
آج جمعے کا دن تھا، گزشتہ رات ہی حکومت سندھ نے شہریوں کی زندگیوں کا احساس کرتے ہوئے جمعے کی نماز کے اجتماعات میں پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا مگر انتہائی افسوس کے ساتھ مجھے یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس اہم نوٹیفکیشن کو مولوی حضرات نے رد کرتے ہوئے کراچی شہر کی بہت سی مسجدوں میں نمازِ جمعہ کے اجتماعات منعقد کروائے۔ وباء کی ان آفت زدہ گھڑیوں میں جب ہر باشعور انسان سماجی فاصلہ رکھنے کی ترغیب دے رہا ہو وہیں یہ مولوی حضرات عوام کی زندگیوں کو نماز جمعہ کے نام پر موت کی طرف دھکیل ریے ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے لمحہِ فکریہ ہے۔ آخر کب تک عوام کی بڑی تعداد ان چند شدّت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنی رہے گی۔
آج میں نے دن میں دو بار اپنے کمرے سے نکل کر آسمان کی طرف دیکھا۔ ہلکے نیلے رنگ میں آسمان بیحد دلکش لگ رہا تھا۔ کچھ دنوں سے یہاں آسمان حیرت انگیز طور پر نکھرا ہوا سا دکھنے لگا ہے کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور جب اتنی قلیل تعداد میں گاڑیاں چل رہیں ہوں تو فضائی آلودگی میں خود بہ خود کمی واقع ہو حاتی یے۔ اس صاف اور سورج کی تمازت سے چمکدار ہلکے نیلے رنگ کے آسمان کو دیکھتے ہوئے مجھے کرفیو کے زمانے کا کراچی یاد آجاتا ہے۔۔۔ اس لمحے میری آنکھیں بے اختیار نم ہو جاتی اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ یہ لاک ڈاؤن کے دن اُن کرفیو زدہ خونی دنوں کے مقابلے میں اس لیے بہتر ہیں کہ اب فضا میں نہ تو جلے ہوئے ٹائروں کی کوئی بُو باس ہے، نہ ہی کہیں سے پبلک بسوں میں لگائی گئی آگ کا دھواں پھیلتا نظر آتا ہے اور معصوم شہریوں کو خوف زدہ کر دینے والی بندوقوں سے گولیاں چلانے کی آواز بھی کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہے!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply