آن لائن نماز کوئی نئی بات نہیں ۔۔۔ حافظ صفوان

نوٹ از طرف حافظ صفوان صاحب: اس مضمون کو صرف وہ لوگ پڑھیں جن کا کوئی قریبی عزیز کرونا وائرس سے وفات پاچکا ہے۔ بقیہ لوگ اسے یکم رمضان 1441ھ کے بعد پڑھیں۔ شکریہ۔
۔
جاوید احمد غامدی صاحب کو خدا سلامت رکھے، آمدہ حالات پر اپنی دبنگ دوٹوک رائے ضرور دیتے ہیں، اور اگر اپنی پہلی کسی رائے کو تبدیل کرنا پڑے تو ذرا نہیں ہچکچاتے۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں آن لائن نماز پر ایک گروپ میں بات چلی جو دب دبا کر رہ گئی۔ یہ سوال ان تک پہنچا تو انھوں نے جواب دینے میں دیر نہیں کی۔ ان تک ہماری بندگی پہنچے۔ اصولی بات ہے کہ سوال کا جواب دینا چاہیے نہ کہ سوال کرنے والے کو خفیف کرنا یا کنی کترانا۔
آن لائن نماز کے سوال سے کوئی پندرہ سولہ برس پرانا واقعہ یاد آیا۔ ہری پور کا تبلیغی اجتماع قریب تھا جس کے لیے فضا بنانے اور زمین نرم کرنے کی محنت کوشش کے لیے رائے ونڈ سے مستورات کی ایک تبلیغی جماعت بھی تشریف لائی جس میں کویت اور کنیڈا کے ساتھی تھے۔ اس جماعت نے کئی گھروں میں کام کیا۔ شدید سردیاں تھیں۔ ایک دن صبح کے بیان کے وقت بہت بارش چل رہی تھی۔ بجلی بند تھی اس لیے ساؤنڈ سسٹم نہ چل سکا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ایک کویتی مہمان نے اپنی بیوی کا نمبر ڈائل کیا جس نے مستورات کے کمرے میں سپیکر آن کرکے بیان سنوایا۔ بیان و مطالبہ مکمل ہوا اور ساتھ ہی کھانا وانا تو موسم کی وجہ سے نماز بھی ادھر ہی پڑھ لی۔ نماز کی صورت یہ ہوئی کہ مردوں نے بیان والے کمرے میں جماعت کھڑی کی جب کہ مستورات نے اپنے کمرے میں، اور یہ کمرہ سڑک کے سامنے والے گھر میں تھا۔ نماز کنیڈا سے آئے ہوئے ایک مولوی صاحب نے پڑھائی (نام بتانا مناسب نہیں) جو کئی سفر کرچکے تھے۔ اس روز بیان سننے 25 مستورات تشریف لائیں جن میں سے ایک جماعتِ اسلامی کی رکن تھیں اور دو شیعہ۔ میں نے بارش میں نماز کے لیے مسجد جانے کو اصرار کیا تو امام صاحب کا فرمان تھا کہ خدا صرف مسجد میں نہیں گھر میں بھی ہوتا ہے۔
اس آن لائن جماعت میں تین ممالک کے مسلمان مرد و عورت شامل تھے جن میں حنفی دیوبندی، شافعی، اہلِ حدیث، جماعتِ اسلامی اور شیعہ مسالک والوں کے علاوہ میں بھی موجود تھا جسے سہولت کے لیے آپ وکٹورین مسلمان کہہ سکتے ہیں۔ نماز پڑھانے والے مولوی صاحب جانتے تھے کہ عورتوں کی صف 300 فٹ کی سڑک پار کرکے ایک گھر میں بنی ہوئی ہے اس لیے اتصال کا کوئی سلسلہ ہی نہیں ہے۔
قصہ سرائی برسرِ مطلب۔ عبادات خدا کی رضا کے لیے ہوتی ہیں جن کی صورت حالات کے مطابق ادلتی بدلتی رہتی ہے۔ اگر چھت پر لگے لاؤڈ سپیکر سے نماز ہوسکتی ہے تو فون کے سپیکر سے بھی نماز ہوسکتی ہے، اور ہم کوئی ڈیڑھ عشرہ قبل آئی پی فون پر یہ کام کرچکے ہیں۔ اونٹ پر بیٹھے مسافر کی نماز ہوسکتی ہے تو ہوا یا پانی کے جہاز میں بیٹھے مسافر کی بھی ہوسکتی ہے۔ اگر حالات اجازت نہ دیتے ہوں تو صدرِ اول کے بعضے سرکردہ لوگوں کو بھی نمازِ جنازہ کے بغیر دفنانے کا ذکر کتابوں میں موجود ہے، بلکہ بعضوں کو تو قبر تک نہ ملی اور بعضوں کو قبروں سے نکال کر ان کی لاشوں کی بے حرمتی کرنے والے مسلمانوں کو آج بھی محترم القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ کی کتابیں پڑھیے تو بدترین خونخوار مسلمانوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے۔
قدرت اپنا رحم وسیع کرے، خدانخواستہ اگر وبائے عام یا کسی ابتلائے ناگہانی کی وجہ سے مرگِ انبوہ ہونے لگے تو نماز اور دیگر عبادات کی صورتیں ازخود بدل جائیں گی اور اس کے لیے عرب کے سلے پارچات کے کسی مینار کی اجازت تک درکار نہ ہوگی۔ یہ جو پیٹ بھرے لوگ آج کل بعضی عبادات کی عمومی ظاہری صورتوں پر اپنی زبانیں چلا رہے ہیں، ان میں سے جس نے اپنے کسی عزیز کی لاش ٹھکانے لگائی اس سے پوچھیے گا کہ کتنے بیس کا سو ہوتا ہے؟

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply