تسلی کے دوبول۔۔ادریس آزاد

ہم سب پریشان ہیں کہ ایک چُڑیل بال کھولے ہمارے ویران گلی کوچوں میں ناچ رہی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو سینوں سے چِپکائے کونوں کھدروں میں چھُپے بیٹھے ہیں کہ کہیں یہ بَلا ہم تک نہ آپہنچے اور اِس آسیب کا ہاتھ ہمارے بچوں ، بیمار والدین اور ہمارے جیون ساتھیوں کو نہ چھُو لے۔ ہم ڈرے ہوئے ہیں کہ کہیں ہم کورونا دیوی کے کرودھ کا شکار ہو کر مرہی نہ جائیں۔ یہ دن تاریخ انسانی میں یاد رکھے جائیں گے۔ صدیوں بعد بھی ہمارا ذکر ہوا کرےگا۔ صدیوں بعد بھی وحشت کے اس ننگے ناچ کو یاد کرکے انسانیت کے دُکھ درد کی کہانیاں دہرائی جائیں گی۔

آج ہمیں ذرا سی چھینک بھی آتی ہے توہم گھبراجاتے ہیں۔ بخار ہوجائےتو دِل چھوٹاکرلیتے ہیں۔ کھانسی لگ جائے تو مارے خوف کے دِل بند ہوتا ہوا محسوس ہوتاہے۔ اور اگر کھانسی اور بخار ایک ساتھ ہوجائیں توہم وہم کے تاریک قبرستان سے اُس وقت تک واپس نہیں آپاتے جب تک اپنی قبر کے کتبے پر لکھی عبارت نہ پڑھ لیں۔

ہم نے اپنے اپنے گھروں کے دروازے زورسے بند کرلیے ہیں۔ اندر کی طرف سے تالے بھی لگادیے ہیں۔ پڑوسیوں کی ہمیں کچھ خبر نہیں۔ کافی دنوں سے اُن کی جانب سے بھی آوازیں نہیں سنائی دے رہیں۔ گلی میں کوئی بچہ کرکٹ نہیں کھیل رہا۔ لیکن کُوڑے والا روزانہ صبح آتاہے۔ اُس نے ماسک تو پہن رکھاہے لیکن ہمیں اُس سے خوف آتاہے۔ ہم اپنے دروازے کے اندر بھی اس سے ڈررہے ہیں کیونکہ وہ تو کوڑے والا ہے۔ اس نے تو سب گھروں کا کوڑا اپنی ریڑھی پر ڈالا ہے۔ اگر کسی گھر میں کورونا کا کوئی مریض ہوا تو؟

اصل میں انسان اُس وقت نہیں ڈرتا جب اُسے کچھ ہوجانے کا ڈر ہو۔ بلکہ انسان اُس وقت ڈرتاہےجب اس کوحوصلہ دینے والا حوصلہ ہاردے۔ جب اُس کے آخری سہارے کو کچھ ہوجائے۔ یہ ڈاکٹر ، یہ طب کی دنیا کو سمجھنے والے لوگ جنہیں آج بھی پنجابی میں سیانے کہاجاتاہے، یہ سیانے جو ہمارا آخری سہارا تھے اِنہیں کچھ ہوگیا ہے۔ کورونا کا کرودھ شروع ہوتے ہی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے بڑے بڑے ماہرین نے اعلان کردیا کہ یہ وائرس نیا ہے اور وہ اس کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے۔ یہ نامعلوم کا خوف تھا، جسے انگریزی میں ’’فِیَر آف اَن نون‘‘ کہتے ہیں۔ ہمارے حوصلہ سازوں کے حوصلے پست تھے۔ ہمارے ہمّت سازوں کی ہمّتیں جواب دینے لگی تھیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ماہرین نے اندازۃً بتایا کہ اِس سال کے اختتام تک کورونا وائرس زمین کی سترسے اسّی فیصد آبادی میں پھیل جائےگا، اوریہ کہ وہ ابھی اس وائرس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اُنہوں نے اندازۃً یہ بھی بتایا کہ اس کی شرح اَموات دوفیصد ہے۔

ہرسال دنیا میں چھ سے سات کروڑ لوگ مرجاتے ہیں اور ان سے دوگنا نئے انسان پیدا ہوجاتے ہیں۔ 2015 میں پانچ کروڑسترلاکھ لوگ فوت ہوئے اور تیرہ کروڑ بچے پیدا ہوئے۔ دل کی بیماریوں سے ایک کروڑ سترلاکھ لوگ ہرسال مرجاتے ہیں۔پچانوے لاکھ لوگ کینسر سے مرتے ہیں۔ پچیس لاکھ لوگ سانس کی بیماریوں سے مرتے ہیں۔ باقی سب دوسری بیماریوں سے مرتےہیں۔ چونکہ کورونا سے مرنے والوں میں دل اور کینسریا دیگر تمام بیماریوں سے مرنے والے بھی شامل ہیں اس لیے اِس سال مرنے والے لوگ بھی وہی ہونگے جنہوں نے اپنی باری پر مرنا تھا یعنی جنہوں نے چھ سے سات کروڑ مرنے والوں میں شامل ہونا تھا۔

ہم یوں نہیں کہہ سکتے کہ کورونا کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد سالانہ شرح اموات سے الگ رکھ کر شمار کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ کورونا سے مرنے والوں میں کینسر ، دل، پھیپھڑوں اورگردوں کی بیماریوں سے مرنے والے تمام لوگ شامل ہیں۔ فرض کریں اس سال کے اختتام پر مرنے والے انسانوں کی تعداد سات کروڑ ہے توان میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس سال دنیا میں مرنے والے لوگوں میں دل کی بیماریوں، کینسر، پھیپھڑوں کی بیماریوں اور گردوں کی بیماریوں سے مرنے والے لوگوں میں کورونا وائرس کی موجودگی بھی تھی۔ یہ بالکل یوں کہنے کے برابر ہے کہ فُلاں اسّی سال کے ہارٹ پیشنٹ میں زکام کا وائرس بھی موجود تھا جب وہ فوت ہوا۔

اس پر مستزاد اگر یہ فرض بھی کرلیں کہ کورونا دنیا کی ستر فیصد آبادی میں پھیل گیا ہے تو یہ دوفیصد کے حساب سے دس کروڑ لوگوں کی جان لے سکتا ہے۔ان میں ڈیڑھ کروڑ وہ لوگ ہونگے جن کی عمریں اسّی سال سے زیادہ ہیں۔ اسّی لاکھ وہ لوگ ہونگے جن کی عمریں ستراور اسّی سال کے درمیان ہیں۔ چھتیس لاکھ وہ لوگ ہونگے جن کی عمریں ساٹھ اور سترسال کے درمیان ہیں۔ تیرہ لاکھ وہ لوگ ہونگے جن کی عمریں پچاس اورساٹھ سال کے درمیان ہیں۔ چارلاکھ وہ لوگ ہونگے جن کی عمریں چالیس اور پچاس کے درمیان ہیں۔ دولاکھ وہ لوگ ہونگے جن کی عمریں تیس اورچالیس کے درمیان ہیں۔ جبکہ اس سے کم عمر لوگوں کی اموات کورونا سے فقط ہزاروں میں ہونگی، پوری دنیا میں۔ تو باقی کے دس کروڑ کیسے پورے کیے جائیں؟ کیا ہم یہ مان لیں کہ باقی سب لوگ جو کروڑں میں ہیں وہ صحت مند ہونے کے باوجود مرجائیں گے؟

چونکہ یہ تعدادیں کرونا کے ہاتھوں دس کروڑ انسانوں کے مرجانے کی صورت میں ہیں، اس لیے یہ بہت ہی زیادہ بعید ازقیاس تعدادیں ہیں۔ یہ تعدادیں فقط اسی صورت میں ہی درست ہوسکتی ہیں جب اس سال کے اختتام تک فقط کورونا سے ہی دس کروڑ انسان مرجائیں۔ گزشتہ تقریباً چار ماہ میں اب تک یعنی اِن سطروں کے لکھنے کے وقت تک صرف اکیس ہزاردوسولوگ کورونا سے فوت ہوئے ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کو کورونا اُس وقت لگا تھا جب دنیا میں کسی بھی ملک نے کوارنٹین، لاک ڈاؤن، کرفیو اور محدود نقل و حرکت کا آغاز نہیں کیا تھا۔ بالفاظ ِ دیگر جو لوگ اب کورونا کو نہیں پھیلا رہے، اُن کا کورونا چالیس دن کے اندر اندر ختم ہوجانے والا ہے۔ ایسی صورت میں میرے سابقہ اعدادوشمار جن کے مطابق اِس سال کے اختتام پر اگر سترفیصد انسانی آبادی کو کورونا لگ جائےتو دس کروڑ لوگ مرجائیں گے، بالکل غلط ہوجاتاہے۔

جس حساب سے لوگوں کو گھروں تک محدود کردیاگیا ہے اور آئیسولیشن کو متعارف کروادیاگیاہے، اس حساب سے دیکھا جائےتو آئندہ کورونا کے مریض سابقہ مریضوں کی نسبت کم تعداد میں سامنے آئیں گے۔ یاد رہے کہ میں نے نسبت کی بات کی ہے۔ اگرگزشتہ تین سے چاہ ماہ میں پونے پانچ لاکھ لوگوں کو کورونا نے متاثر کیا ہے تو کوارنٹین کے بعد آنے والے چار ماہ میں یہ تعداد پانچ لاکھ نہیں ہوسکتی، یعنی اس سے کافی کم ہونی چاہیے۔ البتہ اگر انسانوں آئیسولیٹ اور کوارنٹین نہ کردیا جاتا تو سترفیصد آبادی میں کورونا کے پھیل جانے کی پیشگوئی کو درست تسلیم کیا جاسکتاتھا۔ اگر لوگ آنے والے چند ماہ اِسی طرح آئیسولیٹ رہتے ہیں تو کورونا سرے سے ناپید ہوجانے کے مواقع بھی کسی حدتک نظر آسکتے ہیں۔

یہ خیال کہ کورونا جب گھروں میں داخل ہوجائےگا تو ایک ایک گھر کے بیک وقت کئی کئی لوگ بیمار ہوجائیں گے، یہ خیال اس لیے کوئی اچھی دلیل نہیں ہے کیونکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کےمطابق اسی فیصد لوگوں کو کورونا بالکل بھی کچھ نہیں کہتا۔ یعنی ایک دن بخار، دوسرے دن کھانسی اور تیسرے دن آرام آنا بھی شروع ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے اگر کورونا لوگوں کو گھروں میں جاکر لگنا شروع ہوجاتا ہے تو اسّی فیصد لوگ ایسے ہونگے جو تین چار دنوں میں ٹھیک ہوجائیں گے۔ ایسے وقت میں اگر وہ بدستور گھروں کے اندر ہی رہے تو ان کے گھر کا کُل کا کُل کورونا بالکل ہی ختم ہوجائےگا اور وہیں اپنی موت مرجائےگا۔

اُوپر دیے گئے اعدادوشمارورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، سی ڈی سی اور دیگر نہایت معتبر ویب سائیٹوں سے لیے گئے ہیں۔ ان اعدادوشمار پر میرا تبصرہ اگر منطقی اعتبار سے درست ہے تو اس سال بھی دنیا بھر کے انسانوں کی شرح اموات لگ بھگ وہی رہے گی جو ہرسال ہوتی ہے۔ چونکہ ہرسال ہی کچھ نہ کچھ فرق پچھلے سالوں کے مقابلے میں میں موجود ہوتاہے چنانچہ اس سال بھی کچھ نہ کچھ فرق موجود ہوگا اور ہم شاید یہ سمجھ لیں گے کہ یہ فرق کورونا کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

ہرسال زکام سے چھ لاکھ کے قریب لوگ دنیا میں مرجاتے ہیں۔ زکام بھی متعدی مرض ہے۔ آپ سے کسی اور کو لگ سکتاہے اور اُس سے کسی اور کو۔ ایک بندے سے پورے محلے کو یا پوری بستی کو بھی لگ سکتا ہے۔ زکام بھی وائرس سے لگتا ہے۔ زکام کے وائرسوں کی کئی قسمیں ہیں۔ ان قسموں کی آگے مزید کئی قسمیں ہیں ۔ مثلاً زکام کے وائرس ٹائپ اے کی 180 قسمیں ہیں جن میں سے 131 کے بارے میں انسان جانتا ہے۔ باقیوں کے بارے میں نہیں جانتا۔ اس سوال کا جواب کیا ہے کہ انسانوں میں زکام کے وائرسوں کے خلاف ہرسال اِمیونٹی پیدا ہوجانے کے باوجود ہرسال انسانوں کو زکام کیوں لگتاہے؟ اِس کا جواب سی ڈی سی کی ویب سائٹ پر اِن معلومات کی صورت موجود ہے،

’’انفلوئنزا وائرس اے، ہی فقط ایسا وائرس ہے جو زکام کی وبائی بیماری کا سبب بنتاہے۔ انفلوئنزا اے کی 180 قسمیں ہیں، جن میں سے 131 کے بارے میں انسان جانتاہے۔ اس سے زکام کی بیماری کی عالمی وبا لاحق ہوسکتی ہے۔ اس سے زکام کی عالمی وبا اُس وقت لاحق ہوتی ہے جب ایک نیا اور بہت مختلف انفلوئنزا اے وائرس سامنے آتاہے ، جو لوگوں کو متاثر کرتاہے اور لوگوں کے درمیان پھیلنے کی صلاحیت رکھتاہے۔‘‘

بالفاظ ِ دگر عام زکام کا وائرس، جسے وائرس اے کہا جاتا ہے وہ بھی ہرسال بالکل نیا اور بالکل مختلف ہوکر نہ آئے تو ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ ہم ہرسال اس کے خلاف اِمیونٹی پیدا کرلیتے ہیں۔ اسی لیے وہ اگلے سال نئے ہتھیاروں کے ساتھ وارد ہوتا ہے یعنی وہ خود کو بدل کرآتاہے اور ہرسال چھ لاکھ انسانوں کی موت کا آخری سبب بنتا ہے۔ خود کو بدل کر آنے سے مُراد ہے کہ وہ میوٹیٹ ہوجاتا ہے اور ایک بالکل ہی نیا وائرس بن کر ظاہر ہوتا ہے۔ ابھی ہم نے کہا کہ اس کے حملے سے ہرسال چھ لاکھ لوگ دنیا میں مرجاتےہیں۔ یہ چھ لاکھ لوگ دراصل وہی ہوتے ہیں جن کی عمریں زیادہ ہوں اور اُن میں پہلے سے خطرناک بیماریاں موجود ہوں۔ حالانکہ یہ وائرس نیا ہوتا ہے لیکن اِس کے خلاف بھی ہرسال کوئی خاص نئی دوا نہیں بنائی جاتی ، بس اسے گزرنے دیا جاتاہے اور بخار میں مبتلا ہوجانے والوں کو ان کے اپنے مدافعتی نظام کے ذریعے اس سے لڑنے دیا جاتا ہے۔ قلیل لوگ زکام کے وائرس اے کی ویکسین لگواتے ہیں ۔ ہرسال امریکہ میں ڈاکٹرشورمچاتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے وہ عوام سے کہے کہ زکام کی ویکسین لگوائیں لیکن لوگوں کے پاس ہرسال ہی ویکسین لگوانے کا وقت کہاں ہے؟

جیسا کہ عمران خان نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے مرنے والے پہلے چھ لوگوں میں چار کینسر کے مریض تھے تو اس سے ہم پاکستان میں اپنی آنکھوں سے بھی یہی دیکھ رہے ہیں کہ کورونا آل ریڈی مرے ہوؤں کو مار رہاہے نہ کہ زندوں کو۔

پچھلی بار جب کورونا وائرس آیا تھا یعنی پہلے 2003 میں اور پھر 2013 میں تو ان سے پاکستان میں لوگ نہیں مرے تھے لیکن دنیا میں ہزاروں لوگ مرگئے تھے۔2003 والے کورونا وائرس کو کہا جاتاہے سارس (SARS) اور 2013 والے کورونا وائرس کو کہا جاتا ہے مرس (MERS) ۔ ان دونوں وائرسوں کے پھیلنے کا طریقہ اور بیماری کی علامات وہی تھیں جو آج کورونا 2019 یا کووِڈ 19 کی ہیں۔ بخار، کھانسی، نمونیا اور سانس کی بیماری سے موت۔ ان وائرسوں کے بارے میں بھی آج تک پتہ نہیں چلایا جاسکا کہ چمگادڑ سے پھیلے تھےیا کسی اور جانور سے۔ سارس کے بارے میں گمانِ غالب بتایا جاتا ہے کہ چمگادڑ سے پھیلا اورمرس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اُونٹوں سے۔ چینیوں کو یہ طعنہ دینے والے کہ چینی چمگادڑ کھاتے ہیں، اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ مرس نامی کورونا وائرس سعودی عرب سے شروع ہوا تھا۔ وہیں سب سے پہلے پھیلا اوراُونٹوں سے پھیلا جبکہ عرب اُونٹوں کو شوق سے کھاتے ہیں۔ آج تک ان وائرسوں کی بھی کوئی ویکسین نہیں بنائی جاسکی۔ مرس کے بارے میں سی ڈی سی کی ویب سائیٹ پر لکھا ہے کہ مرس کا شکار ہوجانے والے ہردس مریضوں میں تین سے چارمریض مرجاتے ہیں جبکہ سارس کا موٹیلٹی ریٹ چار تھا۔ سارس تقریباً خودبخود ہی ختم ہوگیا تھا لیکن مرس ابھی تک ختم نہیں ہوا اور 2013 سے ابھی تک پھیل رہاہے۔ البتہ مرس کے پھیلنے کی رفتار معجزاتی طورپر سست ہے۔ مرس بھی سانس کے ذریعے اور ہاتھوں کے ذریعے پھیلنے والا کورونا وائرس ہے۔ ہمارا موجودہ کورونا وائرس سارس اور مرس سے کم خطرناک ہے کیونکہ اس کی شرح اموات ان کے مقابلے میں کم ہے۔

ایسے تمام وائرس جن سے زکام، بخار، کھانسی، نمونیا اور سانس کی بیماری لاحق ہوتی ہے تعداد میں سینکڑوں ہیں۔ جیسا کہ ہم نے ابھی دیکھا کہ فقط زکام وائرس اے کی 198 قسمیں ہیں، جن میں سے صرف 131 کے بارے میں انسان جانتاہے۔ انسان وائرسوں کے ساتھ لاکھوں سال سے لڑتے آرہے ہیں۔ جس وائرس نےانسانوں میں چیچک جیسی موذی وبا پھیلائی تھی، اس پر بھی انسانوں نے قابوپالیا تھا اور چیچک کا آخری کیس 1977 میں ریکارڈکیاگیا۔ میرا ایک بچپن کا دوست ارشد ضیغم بتاتا ہے کہ وہ جب بچہ تھا تو اسے چیچک ہوگیا۔ اس زمانے میں میونسپل کمیٹی والے چیچک کے مریضوں کو زہر دے کر ماردیا کرتے تھے۔ اس کے والد کو بھی انہوں نے بہت سمجھایا اور زہر کی گولیاں دے کر چلے گئے کہ کل آئیں گے ، پتہ کرنے۔ لیکن اس کے والد نے بچے کو چھپا لیا اور خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ وہ بچ گیا۔ اس کے چہرے پر آج بھی چیچک کے نشانات ہیں اور وہ صحت مند بلکہ جسمانی طورپرایک طاقتور مرد ہے۔ 2014 اور 2016 میں حملہ کرنے والے وبائی وائرس ایبولا نے اپنا شکار ہونے والے نوّے فیصد لوگوں کی جان لی۔اِسی طرح 1967 سے 2000 تک ماربرگ وائرس نے انسانوں پر حملہ کیا اور اپنا شکارہونے والے اسی فیصد لوگوں کی جان لیتارہا۔ ماربرگ اور ایبولا نے افریقہ میں عرصۂ دراز تک وحشت کا ناچ ناچا اور زیادہ تر افریقی ملکوں کو ویران اور غریب سے غریب تر کرتاچلاگیا۔

ہم انسان ہیں۔ ہم نے ہمیشہ وباؤں کو مات دی ہے۔ کورونا 2019 ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ہم ہرحال میں اسے شکست دے دینگے۔ اِس بار تو ہم نے ٹھان لی ہے کہ ہم اس وائرس کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے۔ ہم گھروں میں بیٹھ گئے ہیں تو اِس سے ڈر کر نہیں بیٹھے۔ بلکہ اِسے مارنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ یہ ہماری جنگی چال ہے۔ کیونکہ یہ چالیس دن میں اپنے شکار کے ہاتھوں خود ہی مرجاتاہے۔ اس کا شکار زندہ رہے تب بھی یہ مرجاتاہے اور اس کا شکار مرجائے تب بھی مرجاتاہے۔ مرجاتاہے سے مراد یہ ہے کہ اس کا شکار چودہ سے چالیس دن کے بعد اس کے خطرے سے باہر ہوتا ہے اور آئندہ کے لیے اس کے خلاف متوقع طورپر اِمیونٹی یعنی قوتِ مدافعت پیدا کرچکا ہوتا ہے۔ ہم گھروں میں بیٹھ گئے ہیں تو اِس کی زنجیرتوڑنے کے لیے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ زنجیر چینیوں نے کامیابی سے توڑلی۔ وُہان (Wuhan) شہر کی آبادی ایک کروڑ گیارہ لاکھ کے قریب ہے، اوروُہان شہر میں اسّی ہزارلوگوں پر اس نے حملہ کیا۔ لیکن چینیوں نے اس کی زنجیر توڑدی اور نہ ہی وُہان اور نہ ہی چین کے دیگر شہروں میں یہ مزید پھیل سکا۔ کووِڈ 19 سے دنیا میں اب تک 21200 اموات ہوچکی ہیں۔ اس نے اب تک 468905 لوگوں پر کنفرم حملہ کیا ہےجن میں سے ایک لاکھ تیرہ ہزارآٹھ سونو لوگ دوبارہ صحتیاب ہوچکے ہیں اور مزید ہورہے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ ہرسال ڈینگی وائرس کے حملے سے ہزاروں لوگ مرجاتےہیں۔ڈینگی متعدی مرض نہیں لیکن چونکہ اُسے مچھر جیسی انسان دشمن بَلا پھیلاتی ہے اس لیے متعدی سے کم بھی نہیں۔ ایک بار کسی علاقے میں ڈینگی مچھر پیدا ہونا شروع ہوجائیں تو اس علاقے کے لیے ڈینگی بخار بھی ایک وبا کی طرح ہی ہوتاہے۔ پچھلے سال ہمارے پڑوس میں ڈینگی کے بخار سے ایک نوجوان کی جان چلی گئی تو مجھے احساس ہوا کہ یہ وائرس تو ذرا بھی رعایت نہیں کرتا۔ پچھلے سال ڈینگی سے اسلام آباد کے ہسپتال اتنے بھرگئے تھے کہ مجھے جب اُن دنوں پِمز جانے کا اتفاق ہوا تو مریضوں کو لٹانے کے لیے پورے ہسپتال میں جگہ نہیں تھی۔ یہی حال دوسرے ہسپتالوں کا بھی تھا اور دس دن کے اندر اندر مریضوں کی تعداد دوسو سے ہزاروں تک چلی گئی تھی۔

سچ یہ ہے کہ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے گھروں میں بیٹھ جانا ، ہاتھوں کو دھونا اور ایک دوسرے سے نہ ملنا اس وائر س کا سب سے بہترین علاج اور اِس کا سب سے بہترین مقابلہ ہے لیکن دل میں موت کا خوف لے کر گھر میں رہنا نقصان دہ بھی ہوسکتاہے۔ ہمیں رہنا تو گھروں میں ہی ہوگا لیکن بہادری کے ساتھ۔ دہشت اور وحشت، زلزلہ انگیز دل کی دھڑکنیں، ہاتھوں میں کپکپاہٹ، ہاتھ پیر ٹھنڈے ہوجانا، ہائی بلڈ پریشر ، ذہنی دباؤ اور سب سے بڑھ کر دِل کی گھبراہٹ کا حملہ جسے انگریزی میں پینِک اٹیک کہتے ہیں ، اِن کیفیات کے ساتھ ہم کورونا کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ہمیں کورونا کا مقابلہ بہادری سے کرنا چاہیے خوف سے نہیں۔ دنیا بھر کے ڈاکٹر مل کر ہمیں یہ بتارہے ہیں کہ موت کے خوف یعنی ذہنی دباؤ اور گھبراہٹ سے اِمیونٹی کمزورہوتی ہے۔ اگر ہم اتنی ہی شدت کے ساتھ ڈرتے رہے تو وائرس کی دہشت گردی اُن لوگوں کی دہشت گردی سے کم نہ ہوگی جو ہمیں ڈرانے کے لیے دہشت گرد بنتے اور ہمارے اُوپر بم پھوڑتے ہیں۔ وائرس بھی اگر دہشت گردوں کی طرح یہ چاہتا ہے کہ ہم خوفزدہ ہوجائیں تو پھر اس کا مقابلہ خوفزدہ نہ ہوکر کیا جانا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

گزشتہ چند دنوں میں ہمارے بچوں کے ذہنوں پر جو اثر پڑا ہے یہ ان کی آنے والی زندگی میں کبھی کم نہیں ہونے والا۔ ان چند دنوں میں ہم نے اُنہیں جتنا خوفزدہ کردیا ہے شاید ہم پوری زندگی میں اس کا ازالہ نہ کرسکیں۔ یہ وہ نقصانات ہیں جو ہم خوامخواہ اُٹھارہے ہیں کیونکہ یہ وائرس ہماری جان نہیں لے سکتا۔ اگرہمارا دِل گُردہ ٹھیک ہے تو ہم اُن نناوے فیصد لوگوں میں سے ہیں جو اس کے ساتھ مقابلے میں جیت جاتے ہیں۔اوراگرہم اُن نناوے فیصد لوگوں میں سے ہیں تو پھر ہم کیوں اتنا ڈررہے ہیں؟ اوراگر ہم دل، پھیپھڑوں، یا ہائیپرٹینشن کے پہلے سے مریض ہیں تو ہمیں اپنی اُن بیماریوں سے ڈرنا چاہیے نہ کہ کورونا وائرس سے۔ یہ تو آج ہے کل نہیں ہوگا، لیکن ہماری وہ بیماریاں تو ہمارے ساتھ ہیں اور وہ ہمارا ساتھ اس وقت تک نہ چھوڑیں گی جب تک ہم اپنا طرزِ زندگی بدل نہیں لیتے۔ جب تک ہم اپنی خراب عادات کو ٹھیک نہیں کرلیتے۔ جب تک ہم علاقوں سے گندگی کے ڈھیراُٹھوا نہیں لیتے۔ جب تک ہم ہاتھ دھونے کی عادت نہیں ڈال لیتے۔ جب تک ہم آلودگی کو کم کرنے کے لیے ماحولیات والوں کا ساتھ نہیں دیتے۔ جب تک ہم درختوں کو کاٹنا اور جنگلی حیات کا شکار کرنا چھوڑ نہیں دیتے۔ جب تک ہم اپنی گندی گاڑیوں سے کالا اورسفید دھواں نکالنا بند نہیں کردیتے۔ جب تک ہم شاپروں سے جان نہیں چھڑاتے۔ جب تک ہم ورزش نہیں کرتے۔ اچھے اورصاف ستھرے کھانے نہیں کھاتے اور عقلمندوں والی اخلاقیات اختیار اور تعلیم حاصل نہیں کرلیتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply