کرونا سے جنگ، جیت انسان کی ہو گی۔۔مہرساجدشاد

پاکستان میں کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، 10افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ اب تک 21 افراد صحت یاب بھی ہو چکے ہیں، جبکہ اٹلی میں کرونا وائرس کے شدید حملے سے حالات سنگین ہو چکے ہیں، اب تک تقریباً 74 ہزار افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں ان میں سے 7 ہزار پانچ سو سے زائد کی موت ہو چکی جبکہ تقریباً9 ہزار پانچ سو افراد صحت یاب ہو چکے ہیں۔
یہ وائرس بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور کمزور قوت مدافعت پر یہ جان لیوا ہو جاتا ہے۔ اٹلی میں لوگوں نے ابتدا میں حکومتی اقدامات اور ہدایات کو سنجیدگی سے نہیں لیا، یہ بنیادی وجہ بنی کہ وائرس کئی ہفتے مسلسل پھیلتا رہا اور لوگ لاعلمی میں اسے ہر جگہ پہنچاتے رہے۔ اٹلی یورپ کی سب سے عمر رسیدہ آبادی والا ملک ہے، دوسرا یہاں ملتے وقت گالوں کو بوسہ دینے کا بھی سماجی رواج ہے، خصوصاً  بزرگوں سے محبت کی علامت ہے اور بزرگ بھی جوابی محبت کا اظہار اسی طرح گال پر بوسے  سے دیتے ہیں۔ یہ وائرس صحت مند جوان افراد سے ان ضعیف ،لاغر، کمزور قوت مدافعت والے افراد کو بڑے پیمانے پر لگا اور بہت بڑی  تعداد میں ہسپتال پہنچ جانے پر ڈاکٹرز اور میڈیکل  سٹاف میں بھی  پھیل گیا۔

اٹلی میں کچھ پاکستانی دوستوں عزیزوں اور کچھ اٹالین دوستوں سے مسلسل رابطہ رہا، یہاں یہ بات خاص طور پر محسوس کی کہ اب اٹلی میں شدید ترین خوف کی فضا ہے۔ بیماری سے لڑنے کے کئی پہلو ہیں، درست اور بروقت تشخیص، معالج کی طرف سے درست علاج، علاج والی جگہ کا ماحول، علاج کے دوران ارد گرد کے لوگوں کا رویہ، اور بیمار کی تندرست ہونے کیلئے اپنی قوت ِ ارادی۔ پھر متعلقین دیکھ بھال والے اور عیادت کرنے والے عزیز و اقرباء  سب علاج کا اہم حصہ ہیں ، سب کچھ درست ہو لیکن بیمار کی قوت ارادی کمزور پڑ جائے تو بھی علاج کا نتیجہ ناکامی ہو سکتا ہے۔

ہمارے ایک عزیز سخت صدمہ سے دو چار ہوئے اور ڈیپریشن میں مبتلا ہو کر شدید بیمار پڑ گئے، انکی عیادت کرنے والوں نے آ کر حال بتایا کہ وہ اب کچھ  دن کے مہمان ہیں کیونکہ بالکل ہمت ہار گئے ہیں، مرحوم والد محترم ان دنوں اپنے ایک آپریشن کے بعد ابھی گھر منتقل ہوئے تھے، پیشاب کیلئے نالی کیساتھ تھیلی لگی ہوئی تھی، وہ اسی حالت میں عیادت پر مُصر ہوئے، خیر کچھ احتیاط کیساتھ ہم انہیں عیادت کیلئے لے گئے۔ والد محترم نے انہیں اپنی پیشاب والی تھیلی دکھائی اور بتایا کہ رات کو میں آپریشن کے بعد ہسپتال سے گھر آیا ہوں اور دیکھو میں زندہ ہوں تمہیں تو کچھ بھی نہیں ہوا، ڈاکٹر جو دوا دے رہے ہیں کھاؤ اور اپنے آپ کو بتاؤ ابھی تم نے زندہ رہنا ہے، چلنا پھرنا ہے۔ وہ صاحب اس حوصلہ افزائی اور امید افزائی سے ہشاش بشاش ہو گئے، دوا کھانے لگے اور روبہ صحت ہو گئے۔

آج ہمیں توجہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس بیماری سے صحت یاب ہونا ممکن ہے ایک بڑی تعداد ہر ملک میں وائرس زدہ ہو کر بھی مکمل صحت یاب ہورہی ہے، چین میں متاثرین سے صرف دوفیصد اموات ہوئیں اٹلی میں سب سے زیادہ لیکن دس فیصد سے کم اموات ہوئیں۔ ابھی تک کے ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر میں کرونا وائرس کے متاثرین کے چھیانوے فیصد متاثرین میں بیماری معمولی نوعیت کی ہے صرف چار فیصد افراد کی بیماری سنجیدہ حالت میں ہے۔

لیکن یہ سب سے اہم بات ہے کہ اس وائرس سے بچا جا سکتا ہے اس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے اسے اپنے علاقے اپنے ملک اور دنیا سے ختم کیا جا سکتا ہے، پندرہ دن کیلئے لاک ڈاؤن پر مکمل عمل درآمد کر کے، ماسک استعمال کر کے، مصافحہ اور گلے نہ مل کر، ہجوم نہ بنا کر، ان ایام میں ایک دوسرے سے فاصلہ رکھ کر۔ اپنے ارد گرد اپنے گھر اور اپنے زیر استعمال اشیاء کو جراثیم سے پاک کر کے ،ہم اپنے پیاروں کو اپنے ہم وطنوں کو اس موزی بیماری سے بچا سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میڈیکل سائنس میں اس وائرس کے تدارک کیلئے تحقیق شب و روز جاری ہے، اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ کوشش اور محنت کا صلہ ضرور دے گا، ایک انسان کو بچانا انسانیت کو بچانا ہے تو پروردگار اس کوشش کو کیسے ناکام ہونے دے گا جو اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کو بچانے کیلئے کی جارہی ہے، اس وائرس کے خلاف آخری فتح ان شااللہ انسانیت کو بچانے والے انسان کی ہی ہوگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply