گالیاں بہت۔۔سلیم مرزا

لاک ڈاؤن سے مجھے ایک بات کا پتہ چلا کہ میری بیوی سے زیادہ بدذوق عورت شاید ہی دنیا میں کوئی دوسری ہو۔
تیسری چوتھی کو میں جانتا ہوں ۔
یقین کریں اتنے بُرے حالات میں بھی میرا، میرے ساتھ گزارہ نہیں، یہ اتنے سارے سال کیسے نکال گئی ؟
دن میں ستر بار شیشے کے آگے منہ دھونے جاؤں مجال ہے جو ذرا، سی تازگی نظر آئی ہو ۔۔منہ تیرہ تین کو جیسا تھا، چوبیس تین کو بھی ویسا ہی ہے ۔دھل دھل کے کہنیاں بھی سوہنی لگنے لگی ہیں ۔
رہی سہی کسر میری بوجھ بجھکڑی طبیعت نے نکال دی ۔
بیگم کل صبح پوچھنے لگی ” ناشتہ لاؤں ۔”؟
کہا نہیں رہنے دو ،بس ایک کپ چائے دے دو
“کچھ دیر پہلے توآپ نے لسی پی ہے ”
میرا دھیان نجانے کدھر تھا کہہ دیا
” رہنے دو ۔”
فیس بک پہ اکہتر پوسٹیں خوار ہوکر سر اٹھایا تو یاد آیا بیگم کو ناشتے کا کہا تھا ۔
اب چیخ کر بات کرنا میرا مردانہ حق تھا ۔
“ناشتہ کتھے آ “؟میں نے گلا پھاڑا
اس سے دو فائدے ہوتے ہیں ۔ایک تو رعب پڑتا ہے ۔دوسرا اگر کرونئے چھپے ہوں تو یہ کہہ کر گلے سے نکل جاتے ہیں کہ”دفع کرو یار، بندہ چول ہی ہے ”
بیگم بیچاری ون ون ٹوں ٹوں کرتی پہنچی
“آپ نے تو کہا تھا، آپ ناشتہ نہیں کریں گے، صرف چائے پئیں گے ”
کہہ تو ٹھیک رہی تھی۔۔
“پھر چائے کہاں ہے ؟”میرا لہجہ اب بھی حمید بھٹی جیسا تھا
“آپ نے لسی پی تھی، اس لئے سوچا تھوڑا ٹائم گزر جائے تو۔۔۔”
گھبراہٹ صاف دکھائی دے رہی تھی ۔لوہا ٹھنڈا دیکھ کر لوہار گرم نہ ہو ۔یہ کہاں لکھا ہے؟
“جلدی جا، اور چائے لیکر آ”میں نے رعب جمایا ۔۔
بیگم سراسیمگی میں کچن کی طرف گئی ۔آدھے راستے سے واپس آگئی ۔اس کے اندر کی بٹنی جاگ چکی تھی ۔
وہ پلٹی دھیرے دھیرے قریب آئی
“میرا خیال ہے کہ تہانوں عزت راس نئیں۔آنڈیاں توں اٹھو، موٹر پانی لا گئی ہے ۔پلمبر ڈھونڈ کر لاؤ،”
وہ جانے کیلئے مڑی تو پھر کچھ یاد آگیا۔
“گھر اسی صورت میں واپس آنا، اگر پلمبر مل جائے، نئیں تے چائے اسی ماں سے پی کر آنا جس کے گھر پانی آرہا ہو ۔”
گھر سے نکلا تو گلی میرے دل سے بھی زیادہ سنسان تھی ۔
دھیرے دھیرے چلتا پلمبر کی بند دکان تک پہنچا ۔۔
دکان پہ تھڑے پہ ایک بندہ بیٹھا تھڑے کے نیچے بیٹھے کتے کو گھور رہا تھا ۔
میں ذرا قریب ہوا تو اس نے اور کتے نے سر اٹھا کر دیکھا ۔
میں نے اسے اور اس نے مجھے پہچان لیا ۔
وہ اپنا بوٹا تھا ۔کتے نے البتہ استفساری نگاہوں سے بوٹے کی طرف دیکھا ۔؟
بوٹےنے ہم دونوں کو نظر انداز کرکے تھڑے کے نیچے بہتے گندے پانی کو ایسے گھورنا شروع کردیا جیسے “واسا” میں ڈپٹی ڈائریکٹر ہو ۔
میں نے نظروں ہی نظروں میں بوٹے اور کتے کا درمیانی فاصلہ ناپا اور بوٹے سے کتے جتنے فاصلے پہ بیٹھ گیا ۔
“سگریٹ پیو گے “؟میں نے گفتگو بڑھانے کو کہا ۔
“ہاں، ڈبی کھول کر یہاں رکھ دو “بوٹے نے تھڑے کی گرد آلود سطح کی طرف اشارہ کیا،
اپنے لائٹر سے سگریٹ سلگا کر بوٹے نے ڈبیہ وہیں پڑی رہنے دی
“بوٹے ۔آج کسی کی بھین قوالی نہیں کررہے، ٹھیک تو ہو “؟
مجھ سے رہا نہ گیا تو پوچھ ہی لیا ۔
کہنے لگا ۔
“چھڈ یار وکی، یہاں اپنی سوچوں کی بھین نکلی پئی ہے ”
“کیا سوچ رہے ہو “؟
“یار سوچنا امب اے، جب ہم آٹھ دس سال کے تھے توکتنی سادہ زندگی تھی ، سارا دن دوسروں کے گھروں میں، سنسان مندر میں ،بے وقت مسجدوں میں چھٹی کے بعد  سکولوں میں کتے خصی کرتے تھے۔ہمیں کسی چاچے مامے سے ریپ ہونے کا ڈر نہیں ہوتا تھا اور نہ گھر والے پریشان ہوتے تھے۔زیادہ سے زیادہ ماں باپ یہی سوچتے آج آلے ، ایسی تشریف کالی کرنی ہے کہ دوبارہ باہر جانے کا نام نہیں لے گا ۔
مجھے تو چالیس سال گزر گئے ہیں وہ پٹھان بھین نہیں ملا جو بچے اٹھا کر ان کے ہاتھ پاؤں توڑتا تھا ۔
یاد ہے تب جہاں تک قدم تھک نہیں جاتے تھے ،ساری اپنی زمین تھی ،سارا شہر اپنا تھا ،اورسارے چاچے مامے اپنےتھے ۔”
مجھے بوٹے کی بات سمجھ نہیں آئی مگر یہ کیا کم تھا کہ وہ گالیاں نہیں دے رہا تھا ۔اس نے ایک سگریٹ اور سلگایا اور بولا۔

“گولڈلیف جعلی اے، اور ہمارے بچے بدنصیب ہیں ۔
دو منٹ گھر میں ہی نہ نظر آئیں تو ہم خوف سے چیخ پڑتے ہیں ۔انہیں گندی گندی جگہوں پہ ہاتھ رکھ رکھ کر بتاتے ہیں کہ کوئی چاچا ماما یہاں چھوئے تو بتانا ۔
رشتوں سے  ماں نکل گئی ہے ۔سکول چھوڑنے اور لینے جاتے ہیں ۔ان کے گلی میں کھیلنے سے خوفزدہ ہیں کہ کوئی بھین پیش نہ کر جائے ۔
سکول رزلٹ کے نام پہ ان کی معصومیت کھا رہے ہیں ۔علم کی بجائے ہمیں میموری کارڈ تیار کرکے دے رہے ہیں ۔والدین کو تو اب مولوی سے بھی ڈر لگتا ہے کہ جانے اس نے کیسے پڑھا ہو ؟.
اب ہم اپنے سارے خوف بچوں میں انجیکٹ کر رہے ہیں ۔
ہم نے ان سے کھیل چھین لیا ۔موبائل اور ٹیبلٹ دیدیے۔
یار وکی ۔۔آج میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھر میں بند کرکے کنڈی لگا آیا ہوں ۔ڈراکر آیا ہوں، باہر کرونا آیا ہوا ہے ۔
کہاں سے؟ یہ نہ میں بتا کر آیا ہوں، نہ مجھے پتہ ہے ۔ ہم نے مذہب ، معاشرت ،تعلیمات ا،پنی اخلاقی پستیوں کے نام پہ ان کا بچپن چھینا تھا ۔آج رہی سہی کسر بھی نکل گئی ۔مگرکل جب کرونا نہیں ہوگا تو ہمارے بچے صرف گھر کے دروازے تک آزاد ہوں گے ۔؟

Advertisements
julia rana solicitors

میں بچوں کیلئے دکھی نہیں ہوں ۔بچوں کو بچانے اور پڑھانے میں ہم  انہیں بھول چکے ہیں
مجھےدکھ تو صرف یہ ہے کہ بچوں کیلئے ایسا معاشرہ تشکیل دینے پہ مجھے گالی کس کو دینی ہے؟
تمہیں دوں، خود کو یا سارے معاشرے کو؟
بندے کا نام بتا۔
گالیاں بہت-“

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply