سازشی کرونا۔۔ذیشان نور خلجی

میرا خیال تھا کہ کرونا وائرس صرف انسان کے جسم کو ہی متاثر کرتا ہے۔ لیکن رات خبر نامے میں ایک ویڈیو کلپ دکھایا گیا جس سے اندازہ ہوا کہ کچھ لوگوں کے دماغوں پر بھی اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں؟ ایسے متاثرین کے لئے کرونا مینٹل کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے؟

دراصل چند دن سے گھر میں ہی آئسو لیٹ ہوں اس لئے اندازہ نہیں تھا کہ جمعہ کے اجتماعات منعقد ہوئے یا نہیں۔ لیکن اس ویڈیو سے اندازہ ہوا کہ کرونا کیا، اہل مذہب کو تو کرونے کا باپ بھی نہیں روک سکتا۔ ویڈیو میں ایک مولوی صاحب حاضرین سے عادتاً پرجوش انداز میں خطاب کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ سب لوگ آپس میں ہاتھ ملائیں۔ کسی کو کرونا نہیں ہوگا۔ اگر کسی کو وائرس ایفیکٹ کر گیا تو مجھے گولی مار دیجیے گا۔ میں اپنا خون معاف کرتا ہوں۔

سنا تھا عقل مندی کی تو ایک حد ہوتی ہے لیکن بے وقوفی کی نہیں اور اب ان حضرت کو دیکھ بھی لیا ہے۔ اور افسوس اس بات پر ہے کہ جملہ حاضرین جذبۂ ایمانی سے سرشار با آواز بلند ان کی ہاں میں ہاں بھی ملا رہے تھے۔

آپس کی بات ہے اگر یہ کرونا وائرس کچھ عقل مند ہوتا تو کبھی یہاں کا رخ نہ کرتا۔ بلکہ اب بھی اس میں ذرا سی غیرت ہے تو چلو بھر پانی میں ڈوب مرے۔ لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ یہ ہاتھ دھو کے ہمارے پیچھے پڑ گیا ہے اور ہمیں ہی ہاتھ دھو دھو کے مروائے گا۔ اور اس کی مدد کو ان جیسے حضرات کا بھی حصہ بقدر جثہ ہوگا۔

ویسے ان صاحب کو اگر اتنا ہی شوق ہے مرنے کا، تو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ بسم اللہ کریں اور جہاد کا نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہوئے کسی ایسے ہسپتال کا رخ کریں جہاں کرونا کے مریضوں کی نگہداشت کی جا رہی ہے۔ وہاں رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کریں۔ ویسے ان کے ملفوظات سے میں نے اندازہ لگایا ہے کہ ان کے پاس اتنی عقل ہے نہ اہلیت کہ ایک عام ہیلتھ ورکر کے فرائض نبھا سکیں تو پھر ایک ہی ڈیوٹی بچتی ہے۔ چنانچہ پوچا پکڑیں، اور ہو جائیں شروع۔ ایسے میں رب بھی راضی ہوجائے گا اور اگر اسے ان کی یہ ادا کچھ زیادہ ہی بھا گئی تو ذرا دیر نہ لگائے گا انہیں اپنے پاس بلانے میں۔
اور یہاں صرف ایک صاحب نہیں جن کا یہ قصہ ہے بلکہ جب میں نے اس معاملے کو لے کے سرچ کرنا شروع کی تو اندازہ ہوا کہ کرونا تو پاکستان میں آ کر ہی بری طرح سے پھنس چکا ہے اور اسے اندازہ نہیں ہو رہا کہ جائے تو جائے کس طرف۔ کہ یہاں ہر مذہبی جماعت ہی اس کو اپنے خلاف استعمال ہونے کا اندیشہ ظاہر کر رہی ہے۔ کسی کا یہ مجرم ہے کہ ان کی مساجد بند کروا رہا ہے اور کسی کی مجالس منعقد نہیں ہو رہیں اور کسی کی محافل بند ہوئی پڑی ہیں۔ اور جس سے کچھ نہیں بن پڑتا وہ اسے یہود کی سازش قرار دیتے ہوئے اپنا دامن جھاڑ رہا ہے۔ چند ماہ قبل جب چین سے اس کی شروعات ہوئی تو کسی نے اسے حرام خوری سے جوڑا اور کسی نے امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر سے۔ اور آج جب یہ امریکہ اور یورپ سمیت کئی اہم ملکوں میں اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے تو اسرائیل کے یہودیوں کی سازش بیچ میں آن ٹپکی۔

Advertisements
julia rana solicitors

قارئین ! ہم سے بھلا کب کھوج لگایا جانا ہے کہ درحقیقت یہ سازش بھی ہے کہ نہیں۔ اور نہ ہی اتنا وقت بچا ہے کہ اس تھیوری کا عمیق مطالعہ کیا جائے۔ لیکن ابھی کرنے کے جو کام ہیں وہ تو کریں۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ کیسے اس عفریت سے بچ سکتے ہیں اور جلد از جلد اس کا فیصلہ لینا ہو گا۔ لیکن اگر ہم اسے کوسنے دینے اور للکارنے تک ہی محدود رہے اور اس سے بچاؤکی احتیاطی تدابیر عملی طور پر نہ اپنائیں تو پھر اگر یہ واقعی یہودیوں کا ایجنڈا ہے تو ہم بھی اسے اپنے منبروں اور محرابوں سے با آواز بلند کامیاب کروانے کے در پے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply