حالات کا تقاضا کیا ہے؟۔۔۔راجہ عرفان صادق

کرونا سے مجھے کچھ نہیں ہونا، یہ ایسی خام خیالی ہے جو اس وقت میرے وطن کے عام شہری کے دلوں میں پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی پابندیوں کے باوجود عوام گھروں تک محدود رہنے کی بجائے سڑکوں، چوکوں، چوراہوں اور گلیوں بازاروں میں گھومنے میں مگن ہیں۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر آنے والے ممکنہ خطرہ سے بار بار آگاہی حاصل کرنے کے باوجود ہمارے دل ابھی تک یہ ماننے کو تیارہی نہیں کہ کرونا ہمارے اور ہمارے پیاروں کے لیے کتنا بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔

چین کے شہر ووان سے شروع ہونا والے اس مہلک وائرس نے اٹلی میں تو تباکاریوں کے ریکارڈ توڑ کے رکھ دیے ہیں۔ میڈیا سے حاصل ہونے والے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اٹلی میں اس وائرس کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ اٹلی کی عوام کی یہ خام خیالی تھی کہ “کرونا سے مجھے کچھ نہیں ہونا”۔ جس کی وجہ سے اٹلی کے اندر اس وائرس نے مہینوں نہیں بلکہ ہفتوں، دنوں اور گھنٹوں کے حساب سے تباہی مچاہی۔

اٹلی جیسے ملک میں اس وائرس کی تباہ کاریوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے یورپ کے دیگر ممالک نے جس انداز میں رد عمل ظاہر کیا ہے اس سے اس وائرس کے مہلک ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

برطانیہ جیسے ملک نے اس خطرے کے پیش نظر یہاں تک سوچنا شروع کردیا ہے کہ اگر برطانیہ میں اس کی تباہ کاریاں شروع ہوگئیں تو فوت شدگان کی میتوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے کیا اقدام اٹھائے جائیں گے اور اس حوالے سے برطانوی پارلیمنٹ میں نئی قانون سازی کےلیے بحث بھی شروع ہوگئی ہے۔

دوسری طرف ہم اس کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ جہاں عوامی سطح پر سخت لاپرواہی کا سلسلہ جاری ہے وہیں پروفاقی حکومت اب اس معاملہ میں تاخیر کی مرتکب ہورہی ہے۔پورے ملک میں مکمل لاک ڈاؤن کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کی نیک نیتی پر شک نہیں کیا جاسکتا۔لاک ڈاؤن کے حوالے سے ان کےشکوت و شبہات اپنی جگہ بجا ہیں۔ اگرچہ ان کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ لاک ڈاؤن سے جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا وہ دیہاڑی دار مزدور ہیں جو ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں تو دوسرے وقت کے کھانے کے لیے ان کے ہاتھ کچھ نہیں ہوتا۔ یہ بات اپنی جگہ سو فیصد درست ہے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بڑے مقاصد کے لیے چھوٹے مقاصد کو قربان کرنا ہی عقلمندی اور دانشمندی کا ثبوت ہوتا ہے۔

اس وقت پاکستان میں 25فیصد افراد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے یہ وہ طبقہ ہےجو روزانہ کی بنیاد پر اپنی اجرت حاصل کرتا ہے جبکہ دیگر 75فیصد وہ لوگ ہیں جو متوسط یا اوپر کے درجے کی زندگی بسر کررہے ہیں اگر ملک میں مکمل لاک ڈاون کر دیا جائے تو کم از کم ان 75فیصد افراد کو خطرے سے نکالا جاسکتا ہے۔ جہاں تک دیگر 25فیصدعوام کی بات ہے وہ بیچارے تو پہلے ہی بہت سے مسائل کا شکارہوچکے ہیں کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے نظام زندگی تو پہلے ہی مفلوج ہوکررہ گیا ہے۔

اس وقت دیگر تمام سرگرمیاں مفلوج ہیں یہ بیچارے تو لاک ڈاون نہ ہونے کے باجود بھی اپنے اپنے کاموں سے ہاتھ دھو بیٹھے کیونکہ اس وقت زیادہ تر کام بند ہیں۔ یہ لوگ صرف دن بھر باہر رہ کر کام تلاش کرنے کی ناکام کوشش میں ہی مصروف رہتے ہیں۔ لاک ڈاؤن نہ ہونے کی وجہ سے یہ دوہرے خطرہ سے دوچار ہیں ایک تو کام نہ ہونے کی وجہ سے فاقہ کشی کا خطرہ اور دوسرا دن بھر باہر رہنے سے کرونا وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ جوہر وقت ان کے گرد منڈلاتا رہتا ہے۔

اگر ملک میں لاک ڈاون کردیا جائے تو یہ لوگ کم از کم ایک خطرہ (کرونا وائرس) سے تو مکمل محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اب آتے ہیں ان کو درپیش دوسرے مسئلہ کی طرف یعنی خوراک کی کمی کو پورا کرنا۔ اس مسئلہ کو بھی اگر سائنسی بنیادوں پر لیا جائے تو اس سے بھی کافی حد تک نبردآزما ہوا جاسکتا ہے۔ ایک تو حکومت پاکستان کو اپنے تمام غیر ضروری اخراجات، تمام ترقیاتی  سکیموں اور دیگر فنڈز کو ان افراد کو خوراک فراہم کرنے کے لیے مختص کردینا چاہیے۔

دوسرا یہ جیسا کہ جناب وزیر اعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں خود کہا کہ پاکستانی قوم ایسی قوم ہے جس نے مشکل گھڑی یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے مجبور اورمسائل میں گھرے بھائیوں کی کس طرح مدد کرتے ہیں اور اس کا عملی ثبوت انہوں نے 2005کے زلزلہ اور 2010 کے سیلاب کے دوران دیا۔ اس لیے جناب عمران خان کو اپنی قوم پر پورا بھروسہ ہونا چاہیے کہ وہ اس مشکل کی گھڑی میں اپنی ان بہن بھائیوں کو کبھی نہیں بھولیں گئے جن کے پاس ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ہے۔ اس پر عملی اقدام پاکستانی عوام نے پہلے ہی شروع کردیا ہے اور مخلتف علاقوں میں این جی اوز اور عوامی سطح پر راشن فراہم کرنے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں جنہوں نے خشک راشن فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وزیر اعلیٰ سندھ، پھر وزیر اعظم آزادکشمیر نے مکمل طور پر اور پھر وزیر اعلی پنجاب نے کسی حد تک لاک ڈاون کا اعلان کرکے بروقت اقدام اٹھانے میں پہل کردی ہے اور وقت یہ ثابت کرے گا کہ ان حکومتوں کے یہ فیصلے بروقت تھے اور ان کے مثبت نتائج برآمد ہونگے۔ لیڈر شپ کا پتہ ہمیشہ مشکل اوقات میں ہی پتہ چلتا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان جن کو ہمیشہ خطروں کا کھلاڑی کہا جاتا ہے اور جنہوں نے ہر مشکل وقت میں جوانمردی کے ساتھ اس مشکل کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دکھایا۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ وہ ملک میں مکمل لاک ڈاون کا اعلان کریں اور اس لاک ڈاون پر عملدرآمد کے لیے پاک فوج کی مدد حاصل کریں جس طرح سندھ، آزادکشمیر اور پنجاب کی حکومتوں نے حاصل کرلی ہے۔ پوری قوم ان کے اس فیصلے کی پشت پر کھڑی ہوگی اور لاک ڈاون سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں ان کے خدشات کو دور کرنے میں ان کی بھرپور معاونت کرے گی۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اس امتحان سے نکلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply