باڑے کا باؤ(محبت کُھرک ہے، سے اقتباس)۔۔سلیم مرزا

چونکہ ان دنوں فیس بک پہ دانشور نہیں تھے اس لئے ابا کا خیال تھا کہ فارغ دماغ شیطان کا ہوتا ہے۔
چنانچہ مجھے ایک سنار کے پاس زیورات کی جڑائی کا کام سیکھنے بھیج دیا
استاد کی خوش قسمتی کہ مجھ جیسا تازہ تازہ میٹرک فیل شاگرد ملا۔
تازہ دسویں فیل کی بھی اپنی خوشبو ہوتی ہے ۔اپلائیڈ فار 125ہنڈے جیسی۔
ایکسیلیٹر نہ بھی دیں تو وکھرا وکھرا اسٹروک سنائی دیتا ہے۔
گن کر سات دن نہ گزرے کہ استاد نے جان لیا کہ شاگرد نیب سے ڈیپوٹیشن پہ آیا ہے ۔سر سے پاؤں تک حال دل بتایا،
لب لباب یہ تھا کہ
“بچے تو خیر سے تین ہیں ۔مگر محبت نام کی کسی غیر حقیقی اور ناپائیدار شے سے آشنائی نہیں، ایک پیکٹ سگرٹ اور پچاس روپے روزانہ پہ استاد محترم کو شاگردی سے سرفراز فرمائیں ”
مزید تفتیش پہ اندر کھاتے قصہ یہ نکلا ،
سنیارا دس پندرہ۔کلومیٹر دور دو ضلعوں کے سنگم پہ واقع ایک گاؤں کی نورین نامی کڑی پہ عاشق تھا ۔اور تین ماشے، تولے کے حساب سے یکطرفہ محبت کی کاٹ سہہ رہا تھا۔
“بس کہہ نہیں پایا تھا ”
بندہ بھی کیا چیز ہے، اندر ہی اند سہہ جاتا ہے ۔کبھی کبھی کہنا کتنا مشکل ہوجاتا ہے ۔
کوئی ہفتے بھر کے بعد مذکورہ نورین ناک کی تیلی لینے جائے وقوعہ آپہنچی، استاد کے بتانے سے پہلے ہی جان لیا کہ ہونہ ہو یہ بے تاثر جسم، اور بنا کسی اتار چڑھاؤ والی ہی سنار کی معشوق ہوگی ۔
کیونکہ سنیارے کی سینس آف ہیومر ہوتی ہی کتنی ہے؟ نورین کے ساتھ اس کی چھوٹی بہن نوشین بھی تھی ۔ شاید کافی حسین ۔
چوٹ کھانی ہو یا لگانی ۔۔ لوہار، سناروں کی کہاں سنتے ہیں ۔؟
میں تو پیدائشی مرزا تھا ۔
نوشین “صاحباں ” کے رول کیلئے پرفیکٹ تھی ۔
میں نے سنار کے دل گردے کپورے کھول کر بانس جیسی نورین کے قدموں تلے بچھا دئیے ۔
“کسی کیلئے کہہ دینا کتنا آسان ہوتا ہے”
نورین نے صرف دل اٹھا کر باقی سامان امانتا رکھوا دیا کہ حامل ہذا کو مطالبہ پہ ادا کرے گا ۔
مرزے کا ایک تیر دونشانوں پہ لگا ۔
خربوزہ دیکھ کر چھوٹی دوشیزہ بھی رنگ پکڑ گئی
بڑی زخمی ہوئی تھی تو، چھوٹی کا بھی “کن بھر “گیا تھا ۔
تعلق، ملاقاتیں اور آنا جانا بڑھتا گیا ۔استاد شاگرد کو ہی بھول ہی گیا تھا ایکدن جب ان دونوں بہنوں کیلئے کولڈڈرنک منگوائی گئی تو چھوٹی نے پینے سے، صاف انکار کردیا ۔اصرار کیا تو کہنے لگی
“وکی جوٹھی کرے گا تو پیوں گی “؟
سنار اچھا کاروباری نہیں تھا ۔اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ وکی “گیٹ ون، فری ون “کی ڈیل پہلے دن ہی کرچکا تھا ۔نوشین کا گاؤں لب سڑک تھا ۔آتے جاتے رکنے کے بہت مواقع تھے ۔
سردیوں کی ایک دوپہر نوشین سے ملنے گیا تو گھر میں اکیلی تھی ۔
بضد ہوگئی پہلے کچھ کھا لو ۔میں نے ٹالا کہ اس سے وقت ضائع ہوگا ۔
نہیں مانی ۔
“کاڑھنی “سے کلو بھر کا گلاس دودھ بھر لائی ۔
پہلے ہی گھونٹ میں منہ ملائی سے بھر گیا ۔
مجھے خطرے کا اندازہ تھا ۔مگر وہ زبردستی پلاتی رہی ۔میں کھاتا رہا ۔
وہی ہوا ۔
پہلی جپھی کا تیسرا منٹ ہی ہوگا ۔
مجھے لگا میرے پیٹ میں کوئی پیپا گھسیٹ رہا ہے ۔
آٹھویں “کس” پہ میرے معدے کے اندر سے پکڑ دھکڑ کی آوازیں آنے لگیں ۔ میں موٹر سائکل پہ بیٹھ کر بھاگ نکلا ۔
مگر دیر ہوچکی تھی ۔
سڑک پہ ایک پل کے نیچے موٹر سائکل سمیت گھس گیا ۔
پل پہ سے گزرتی بسوں میں سے لوگ جھانک رہے تھے ۔
شکر ہے موٹر وے پولیس کا رواج نہیں تھا ۔ورنہ شکائت ہوجاتی کہ پل کے نیچے کوئی آتشیں اسلحہ سے دہشت گردی کر رہا ہے ۔
محبت مجبور نہیں ہوتی ۔کبھی کبھی مجبوری کو ہی محبت بنانا پڑتا ہے ۔نوشین کے گاؤں ،میں چوہدریوں کی آپسی دشمنی تھی مگر ہمارا کیا تعلق۔آنا جانا لگا رہا۔۔۔
اور ویسے بھی سب عاشق سمجھتے ہیں کہ۔”ہمیں کون سا کوئی دیکھ رہا ہے “؟
ایسی ہی ایک خوبصورت رات جب میں اس کے ساتھ تھا۔ ایکدم فائرنگ ہوگئی ۔دونوں گروہوں نے دوگھنٹے فائرنگ کی ۔
پھر دو ضلعوں کی پولیس نے تین گھنٹے سرکاری اسلحہ ضائع کیا ۔جنگ پلاسی کے بعد گھر گھر تلاشی ہوئی ۔
مجھے زلفوں کی بجائے بھینسوں کے باڑے سے برآمد کیا گیا ۔
اب دونوں فریقین سے کہا گیا کہ اپنے اپنے بندے علیحدہ کر لو ۔باقی سب اشتہاری جنگجو جو تم لوگوں نے باہر سے بلوائے ہیں ۔ سیدھے اندر جائیں گے ۔
شناخت پریڈ شروع ہوئی ۔سپاہی ایک ایک بندے کے منہ پہ ٹآرچ کی روشنی ڈالتا، اور پوچھتا ۔
“یہ کون ہے، کہاں کا ہے “؟
کوئی ایک طرف کا نکلتا، کوئی دوسری طرف کا ۔
کوئی کہیں کا بھی نہیں ۔
جن بدمعاشوں پہ اختلاف ہوتا کہ یہ ہمارے گاؤں کے نہیں
دوسری پارٹی نے اسے چاچے مامے کا ثابت کرکے بچاتی ۔
کوئی گھنٹے بھرکے بعد ٹارچ کی روشنی مجھ پہ پڑی
تھانیدار نے پوچھا ۔
“اے باؤ ۔کس کی طرف سے ہے “؟
سارے کمینے خاندانی دشمن تھے ۔
لیکن مجھے دیکھتے ہی ایک ساتھ قہقہے لگانے لگے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

محبت کھرک ہے سے اقتباس

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply