مظاہر قلم/کورونا سے جنگ ، احتیاط کے سنگ۔۔مظہر اقبال کھوکھر

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم نے ہر مشکل کا مقابلہ اتحاد و یکجہتی ، عزم و ہمت اور بھرپور حوصلے کے ساتھ کیا ہے اور ہمیشہ فتح اور کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے ۔ 1965 کی جنگ ہو ، اکتوبر 2004 کا زلزلہ ہو ، 2010 میں آنے والا سیلاب ہو یا دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی خوفناک جنگ ، پاکستانی قوم نے ملی جوش و جذبے ، اتحاد و یگانگت اور قربانیوں کی ایسی تاریخ رقم کی کہ دنیا دنگ رہ گئی ۔

جنگیں جوش کے ساتھ نہیں بلکہ ہوش کے ساتھ لڑی جاتی ہیں اور جنگوں میں صرف ہتھیار کام نہیں آتے بلکہ جذبوں کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ۔ جنگیں حوصلوں کے ساتھ بھی لڑی جاتی ہیں یا پھر جیت کے یقین اور عزم کے ساتھ لڑی جاتی ہیں۔ بےشک اس قوم کو کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا، جو ہار کو جیت میں بدلنے کا حوصلہ رکھتی ہو۔ جو یقین کے ہتھیار کے ساتھ میدان میں اترتی ہو اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑتی ہو ۔ کون کہہ سکتا تھا کہ پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف ایک ایسی جنگ تن تنہا جیت جاۓ گی جس کے سامنے پوری دنیا نے ہتھیار ڈال دیے مگر پاکستانی قوم نے یہ جنگ جیتی اور ایسی جیتی کہ آج پوری دنیا اس کی مثالیں دے رہی ہے پاکستانی قوم نے معصوم بچوں ، عورتوں ، بزرگوں ، فوجی جوانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سمیت 70 ہزار جانوں کی قربانی دے کر بھی ہمت نہیں ہاری۔ اور دہشت گردی اور دہشت گردانہ سوچ کو عبرت ناک شکست سے دوچار کر کے ملک کو امن و آشتی کا گہوارہ بنا دیا ۔

آج وطن عزیز پاکستان اور پاکستانی قوم کو ایک نئی جنگ کا سامنا ہے ایسی جنگ کہ جس میں دشمن کا وار مختلف ہے جنگ کا ہتھیار مختلف ہے ۔ کورونا وائرس کہ جس نے پوری دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے۔ چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس نے دنیا بھر کے 186 ممالک میں خوفناک تباہی پھیلا رکھی ہے ۔ چین کے بعد اب سب سے بری حالت اٹلی کی ہے، جہاں کورونا وائرس کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد 47ہزار سے بڑھ چکی ہے جبکہ گزشتہ روز ایک ہی دن میں سب سے زیادہ 800 اموات ریکارڈ کی گئیں ۔ دوسرے نمبر پر ایران ہے جہاں روزانہ 2 سے 3 سو اموات واقع ہو رہی ہیں۔ اس وقت دنیا بھر کے 192 ممالک میں تقریباً 3 لاکھ سے زائد افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں ,جس کے نتیجے میں 14 ہزار سے زئد افراد موت کے منہ جا چکے ہیں۔

دنیا بھر کی طرح وطن عزیز پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ملک میں کورونا کے 7 سو سے زائد کیس سامنے آچکے ہیں, جن میں زیادہ تعداد صوبہ سندھ میں ہے جہاں تین سو سے زیادہ لوگ کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ جبکہ ملک بھر میں اس وباء کے نتیجے میں 4 اموات ہو چکی ہیں۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ ایران سے زائرین کی واپسی کے بعد تفتان قرنطینہ سنٹر پر ان کی سکرینگ اور دیکھ بھال کے لیے کس طرح غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ،یقیناً اس میں وفاقی حکومت کی نااہلی واضح ہے مگر یہ وقت مثالی اتحاد و یکجہتی کے ذریعے اس آزمائش اور مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کا ہے ۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور اس سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت کی کارکردگی قابل تحسین ہے جسے پورے ملک میں سراہا جا رہا ہے۔ جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوۓ ” کہا ،لاک ڈاؤن ہوا تو ملک کے 25 فیصد لوگ جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں شدید متاثر ہونگے ،بہتر ہوگا کہ عوام خود کو قرنطینہ کر لیں۔ ملک میں کورونا سے زیادہ افرا تفری کا خطرہ ہے سب نے اگر گھروں میں کھانے پینے کا سامان جمع کرنا  شروع کر دیا تو عام لوگوں کے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ لیکن اگر عوام نے حکومت کے احکامات پر سنجیدگی سے عمل نہ کیا تو پھر لاک ڈاؤن آخری آپشن ہوگا”

یقیناً وفاق اور تمام صوبائی حکومتیں اس مشکل صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھر پور کوششیں کر رہی ہیں۔ بین الاقوامی پروازیں بند کر دی گئی ہیں۔ سندھ میں مکمل لاک ڈاون کر دیا گیا ہے۔ پنجاب ، سندھ اور بلوچستان نے آرٹیکل 145 کے تحت فوج کو طلب کر لیا ہے۔ بلوچستان حکومت نے لوگوں کو دس دن کے لیے گھروں میں رہنے کی اپیل کی ہے پنجاب بھی دو روز تک مکمل بند رہا اور پورے صوبے دفعہ 144 کے تحت 4 سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہے اور حکومت اپنی رٹ کو قائم کرنے کے لیے سخت اقدامات اٹھا رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پورا ملک اس وقت حالتِ  جنگ میں ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اقدامات اپنی جگہ پاک فوج بھی مشکل کی اس گھڑی میں قوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہے مگر یہ جنگ پوری قوم کے ایک ایک فرد کی شمولیت کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی یہ جنگ مختلف ضرور ہے مگر مشکل نہیں اور پاکستانی قوم تو مشکل کو بھی آسانی میں بدل سکتی ہے تو یقیناً کورونا وائرس کی مشکل بھی باقی نہیں رہے گی اس کے لیے ہر شخص کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں کوئی ایک شخص بھی اپنے کردار سے راہ فرار اختیار نہیں کر سکتا اور اس جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار احتیاط ہے ،یہ جنگ احتیاط سے لڑنی ہے اور احتیاط کے ساتھ لڑنی ہے اگر ہم نے احتیاط کا دامن چھوڑ دیا تو نہ فوج اکیلی اس کا مقابلہ کر سکے گی اور نہ ہی حکومت کچھ کر پاۓ گی۔ دنیا کی صورتحال ہمارے سامنے ہے جو دوسروں سے سبق حاصل نہیں کرتے وہ دوسروں کے لیے سبق بن جاتے ہیں۔ اس لیے یہ جنگ پورے ملک کے ہر صوبے ، ہر صوبے کے ہر شہر ، ہر شہر کے ہر قصبے ہر محلے ، ہر محلے کے ہر گھر اور ہر گھر کے ہر فرد نے اس جنگ میں سپاہی بن کر اس دشمن کا مقابلہ کرنا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں حکومت کی طرف سے کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کرنا ہے اور ارد گرد کے لوگوں سے اس پر عمل درآمد کروانا ہے اور اس ملک کے ایک ذمہ دار شہری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سماجی رابطوں اور غیر ضروری میل جول کو کم سے کم کرنا ہے کیونکہ آج کی دوری ہمیشہ کے لیے دور ہو جانے سے کہیں بہتر ہے صفائی کا خاص خیال رکھنا ہے کیونکہ صفائی نصف ایمان بھی ہے ہماری اور ہمارے پیاروں کی جان کی امان بھی ہے۔ اس لیے اگلے چند دنوں تک جتنی ہو سکے احتیاط کریں پاکستانی قوم یہ جنگ بھی جیتے گی ضرور جیتے گی احتیاط سے جیتے گی اور احتیاط کے ساتھ ہی جیتے گی۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply