اے نیا سال

گزشتہ برسوں کی طرح میں ایک بار پھر تیری آمد پر تجھے خوش آمدید کہتا ہوں۔ اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ میرے خوش آمدید کہنے یا نہ کہنے سے تمہارا کچھ بھی نہیں بگڑنے والا۔ نہ ہی تو میرے یا کسی اور کے روکنے سے رکنے والا ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تیرے آنے سے صرف کلینڈر پر لکھی تاریخ ہی بدلتی ہے ورنہ سب کچھ ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں تیرے قدموں کی آہٹ سن کر مجھے ہمیشہ ایک انجانی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ شاید مجھے اس بات کی امید ہو جاتی ہے کہ تو گزشتہ سالوں کی نسبت ایک بہتر سال ثابت ہو گا، تو لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھے گا اور ان کے لیے خوشیوں کی نوید لے کر آئے گا۔ تبھی تو میں ہر بار اپنی بساط کے مطابق تیرا استقبال کرتا ہوں۔
لیکن ایک تو ہے کہ ہر بار میری امیدوں پر پانی پھیر دیتا ہے اور مجھے اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ تیرے آنے سے کچھ بھی نہیں بدلنے والا۔ مگر میں بھی نا جانے کس مٹی کا بنا ہوں کہ ہر مرتبہ نہ چاہتے ہوئے بھی تجھ سے کچھ امیدیں وابستہ کر لیتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب تو پھر سے قدم رنجہ فرما رہا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ ایک بار پھر تیرے سامنے اپنا سینہ کھول کر رکھ دوں تاکہ تجھے اندازہ ہو کہ میرے دل میں کس طرح کی خواہشات مچل رہی ہیں اور تجھ سے میری کیا توقعات ہیں۔
اے نیا سال، میں چاہتا ہوں کہ اب کی بار تو آئے تو اپنے ساتھ حقیقت میں خوشیاں لے کر آئے۔ تیری آمد دنیا، خصوصاً اسلامی ملکوں میں جنگ و جدل کے خاتمے کی نوید دے، تاکہ مذہب اور عقیدے کی آڑ میں معصوم لوگوں کا قتل عام بند ہو۔ لوگ اپنا وطن اور گھر بار ترک کر کے کافروں کے دیس میں پناہ حاصل کرنے کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانے اور سمندری مچھلیوں کی خوراک بننے پر مجبور نہ ہوں۔ لوگوں کی گردنیں کٹنے سے محفوظ رہیں اور ان کی عزتیں بر سر بازار نیلام نہ ہوں۔
اے نیا سال، میری خواہش ہے کہ اس بار تو ان ماؤں کے زخموں پر ضرور مرہم رکھ جن کے معصوم بچوں کے چھیتڑے اللہ اکبر کے نعروں کی گونج میں اڑائے گئے۔ تو ان غم زدہ ماں باپ کے دلوں پر لگے گھاؤ مندمل کر جن کے لاپتہ جوان بیٹوں کی لاشیں ویرانوں سے ملتی رہیں۔ تو ان بیواؤں کو صبر دے جن کے سروں سے ان کا تاج چھین لیا گیا۔ تو ان یتیموں کو آسرا دے جنہیں پدر کی شفقت سے محروم کر دیا گیا۔ تو ان بوڑھے والدین کے درد کی دوا کر جن کے بیٹے تاریک راہوں میں مار دیئے گئے۔ تو ان غم گساروں کے غموں کا مداوا کر جن کے پیارے بم دھماکوں کے دوران ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ اور تو ان بہنوں کے آنسوؤں کے آگے بند باندھ جن کے کڑیل جوان بھائی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
اے نیا سال، تو ان شقی القلب قاتلوں کے دلوں کو پھیر دے جو جنت کے حصول کی خاطر دنیا کو جہنم بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ تو ان میلے کچیلے اور بدبودار خود کش حملہ آوروں کو عقل دے جو جنت کی خوبصورت اور صاف ستھری حوروں کے لالچ میں معصوم عورتوں اور بچوں کو خاک اور خون میں نہلاتے ہیں۔ تو ان شر پسند اور فسادی ملاؤں کی لگام کھینچ جنہوں نے فتوے دے دے کر لوگوں کو دست و گریبان کر رکھا ہے۔ تو انسانوں کے قلوب میں ایک دوسرے سے محبت کی جوت جگا اور انہیں ایک دوسرے کے عقائد کے احترام اور بقائے باہمی کا درس دے۔
کاش تو سکول کے بچوں کا قتل عام کرنے والے برے طالبان کو درس عبرت بنا سکے تاکہ ان ماؤں کا کلیجا ٹھنڈا ہو جن کے ننھے بچے یونیفارم پہن کر اور گلے میں بستے لٹکا کر ہنسی خوشی سکول گئے لیکن واپسی پر ان کی کھٹی پھٹی اور خون آلود لاش گھر آئی۔ کاش تو حکمرانوں کے منظور نظر ان اچھے طالبان کی رسی کھینچ سکے جن کے ہاتھ ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ کاش تو ان خطیبوں کی زبان گدی سے کھینچ کر اکھاڑ پھینک سکے جو منبر پر بیٹھ کر زہر اگلتے ہیں۔ کاش تو حکمرانوں اور عوام کی حفاظت کے ذمہ داروں کو اس بات کی غیرت دلا سکے کہ وہ عوام کو پنجروں میں قید کرنے کے بجائے ان کے خون سے ہولی کھیلنے والوں پر ہاتھ ڈالیں۔ اے کاش تو ان سیاست دانوں کو تھوڑی سی شرم دلا سکے جو عوام سے جھوٹے وعدے کر کے حکمران تو بن جاتے ہیں لیکن وعدہ ایفا کرنا بھول جاتے ہیں۔
کاش تیرے قدموں کی برکت سے پاکستان کو ایسے حکمرانوں اور سیاست دانوں سے نجات ملے جو بار بار حکمرانی کے مزے لوٹنے کے باوجود آج تک ملک میں ایک بھی ایسا ہسپتال نہیں بنا سکے جہاں وہ اپنا علاج کرا سکیں، اس لیے معمولی بیمار ہونے پر بھی عوام کے پیسوں سے علاج کی غرض سے بیرون ملک دوڑ پڑتے ہیں۔ کاش تو ان کے دلوں میں ایک ایسا جذبہ جگا سکے جس کی بدولت وہ ملک میں ایسی درس‌گاہیں تعمیر کرائیں جہاں ان کے بچے تعلیم حاصل کر کے فخر محسوس کریں۔ کاش تو سیاست دانوں کے پاؤں میں احساس کی بیڑیاں ڈال سکے تاکہ وہ آئے دن غیر ملکوں کے سیر سپاٹے کرنے کے بجائے اپنے ہی ملک میں رہ کر عوام کی خدمت کریں۔ کاش تیرے آنے سے اتنی تبدیلی تو آئے کہ پاکستان کی افسر شاہی عوام کے پیسوں کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرنے کے بجائے ان کی خدمت کو اپنا شعار بنا لے۔
اے نیا سال، اس دفعہ تو اپنے ساتھ جادو کی کوئی ایسی چھڑی ضرور لیتا آ جس کے اشارے سے پاکستانی عوام کی بصیرت اور بصارت کا علاج ہو سکے۔ کیونکہ یہ اپنے ہمسائے کے گھر میں لگی آگ کی تپش تو محسوس نہیں کر سکتے لیکن ہزاروں میل دور اٹھنے والا دھواں ان کے نتھنوں میں فوراً گھس جاتا ہے۔ یہ اپنی نظروں کے سامنے ہونے والی قتل و غارت پر تو آنکھیں بند کرکے اور ہونٹ سی کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن سات سمندر پار ہونے والے واقعات کی بو سونگھتے ہی آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ تو انہیں نرگسیت سے چھٹکارا دلا اور ان کے دل و دماغ سے یہ غلط فہمی نکال دے کہ وہ دنیا کی سب سے افضل قوم ہے جس کے جگر میں سارے جہاں کا درد بسا ہوا ہے۔ تو انہیں اتنی بصیرت دے کہ وہ دوسروں کے گھروں میں تانک جھانک کرنے کے بجائے اپنے گھر کی خبر رکھیں اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کے بجائے اپنے معاملات سدھارنے پر توجہ دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پرائے گھر کی آگ ایک دن پھیلتے پھیلتے ان کے اپنے گھروں تک پہنچ جائے۔

Facebook Comments

حسن رضا چنگیزی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک بلاگر جنہیں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق لکھنے میں دلچسپی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply