• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • کورونا وائرس سے بچنے کے لیے ہاتھ دھونا کیوں ضروری ہے۔۔ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی

کورونا وائرس سے بچنے کے لیے ہاتھ دھونا کیوں ضروری ہے۔۔ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی

ہم جانتے ہیں کہ متعدی بیماریوں سے بچنے کے لیے ہمیں اپنی آنکھوں، ناک، اور منہ کی حفاظت کرنا ہوتی ہے کیونکہ عموماً انہی تین راستوں سے بیکٹیریا یا وائرس جسم کے اندر داخل ہو سکتے ہیں- اگر ہم کسی مریض کے بالکل سامنے ہوں تو اس کی کھانسی یا چھینک سے جو رطوبت خارج ہوتی ہے وہ ہمارے چہرے پر گر سکتی ہے اور ان میں موجود بیکٹیریا یا وائرس ہمارے منہ میں داخل ہو سکتے ہیں- لیکن ہمارے جسم میں داخل ہونے والے زیادہ تر وائرس اور جراثیم دراصل ہمارے ہاتھوں پر ہوتے ہیں- جب ہم کسی ایسی سطح کو چھوئیں جس پر وائرس موجود ہوں تو یہ وائرس ہمارے ہاتھوں سے چمٹ جاتے ہیں- جب ہم ان ہاتھوں سے اپنے منہ، ناک، یا آنکھوں کو چھوتے ہیں تو یہ وائرس ہمارے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں- اس وجہ سے بار بار اچھی طرح سے ہاتھ دھونا متعدی بیماریوں سے بچنے کا قابل اعتماد طریقہ ہے

خاص طور پر کورونا وائرس کے بارے میں ریسرچرز نے جو جدید ترین معلومات شائع کی ہیں ان کے مطابق کورونا وائرس کچھ سطحوں پر 72 گھنٹے تک بھی زندہ رہ سکتا ہے یعنی لوگوں کو انفیکٹ کر سکتا ہے- ہر اس سطح کو ڈس انفیکٹ کرنا ممکن نہیں ہے جس پر وائرس کے موجود ہونے کا اندیشہ ہو- اس لیے بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ بار بار صابن سے ہاتھ دھوئے جائیں

لیکن سوال یہ ہے کہ ہاتھ دھونے سے وائرس اور بیکٹیریا ناکارہ کیوں ہو جاتے ہیں اور ہمیں نقصان کیوں نہیں پہنچا پاتے- یہ سمجھنے کے لیے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ وائرس کیا ہوتا ہے- وائرس جینیاتی میٹیریل کا ایک پیکٹ ہوتا ہے جس کے گرد پروٹین یا lipid یعنی چکنائی کا ایک خول ہوتا ہے جو اس جینیاتی میٹیریل کو محفوظ رکھتا ہے- اس کے علاوہ وائرس میں کچھ ایسی پروٹینز ہوتی ہیں جو دوسرے خلیوں کے ساتھ خود کو اٹیچ کر سکتی ہیں- وائرسز خود سے ‘زندہ’ نہیں ہوتیں کیونکہ یہ خود اپنی کاپی نہیں بنا پاتیں- وائرسز دوسرے خلیوں کے ساتھ خود کو اٹیچ کر کے ان خلیوں کے کاپی بنانے کے نظام کو ہائی جیک کر لیتی ہیں اور یوں اپنی کاپیاں بناتی ہیں

جب آپ ہاتھ دھوتے ہیں تو پہلے آپ بہتے پانی سے ہاتھوں کو دونوں طرف سے گیلا کرتے ہیں- اس عمل میں بہت سے وائرس، دوسرے مائکروبز، اور گرد و غبار پانی سے ساتھ بہہ جاتے ہیں- اس کے بعد آپ صابن لگاتے ہیں اور بیس سیکنڈ تک اچھی طرح سے ہاتھوں کو ملتے ہیں- صابن کے مالیکیول چکنائی کے مالیکیولز کو کاٹ ڈالتے ہیں- چکنائی یعنی lipids کے مالیکیول کی ایک خاصیت یہ ہے کہ ان مالیکیولز کا ایک سرا پانی میں رہنا پسند کرتا ہے یعنی hydrophilic ہوتا ہے جبکہ دوسرا سرا پانی سے دور بھاگتا ہے یعنی hydrophobic ہوتا ہے- چکنائی کے مالیکیولز کی یہی خاصیت وائرس کے گرد چکنائی کی حفاظتی دیوار بناتی ہے یعنی چکنائی کے مالیکیولز ایک بلبلہ سا بنا لیتے ہیں جس میں باہر کی طرف چکنائی کے مالیکیولز کا وہ سرا ہوتا ہے جو پانی کو پسند کرتا ہے اور اندر کی طرف مالیکیول کا وہ سرا ہوتا ہے جو پانی سے دور بھاگتا ہے-

جب چکنائی کے مالیکیولز کے ساتھ صابن کے مالیکولز ملتے ہیں تو چکنائی کے مالیکیول صابن کے مالیکولز کے ساتھ تعاملات کرنے لگتے ہیں جس سے وائرس کے گرد چکنائی سے بنا خول ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے- اس طرح وائرس کا جینیاتی میٹیریل اپنی کاپی بنانے کے قابل نہیں رہتا اور وائرس ناکارہ ہو جاتا ہے- جب آپ اپنے ہاتھوں کو صابن لگا کر پانی سے دھوتے ہیں تو یہ جینیاتی میٹیریل پانی کے ساتھ بہہ جاتا ہے- اس طرح یہ وائرس آپ کو بیمار کرنے کے قابل نہیں رہتا

اگر آپ بالفرض ایسی جگہ پر ہیں جہاں پر صابن اور پانی میسر نہیں ہے، تب آپ الکوحل سے بنے hand sanitizer بھی استعمال کر سکتے ہیں- الکوحل بھی وائرس کے خول کو توڑ ڈالتی ہے- الکوحل کے مالیکیولز کی وجہ سے وائرس کے گرد حفاظتی دیوار کمزور ہو جاتی ہے اور وائرس کا جینیاتی میٹیریل ضائع ہو جاتا ہے- البتہ اگر ہینڈ سینیٹائزر میں الکوحل موجود نہیں ہے تو ایسا سینیٹائزر درست کام نہیں کرے گا-

ہاتھ دھونے کا درست طریقہ:
نل کے پانی کی دھار میں اپنے دونوں ہاتھ اچھی طرح سے گیلے کیجیے- اس کے بعد ان پر صابن لگائیے اور اچھی طرح سے جھاگ پیدا کیجیے- اب کم از کم بیس سیکنڈ تک ہاتھوں کو اچھی طرح رگڑیے اور ہتھیلی، ہاتھوں کی پشت، انگلیوں کے بیچ، انگوٹھے کو، غرض کے ہاتھوں کی جلد کے ہر حصے کو رگڑیے- خاص طور پر ناخنوں کے نیچے اچھی طرح سے ملیے تاکہ ناخنوں کی نیچے وائرس کے باقی رہنے کا کوئی امکان نہ رہے- اگر آپ کے ناخن لمبے ہیں تو اس وباء کے ختم ہونے تک ناخن تراش کر چھوٹے کر لیجیے تاکہ ناخنوں میں وائرس کو چھپنے کی جگہ نہ مل پائے- اب ہاتھوں کو پانی کی دھار کے نیچے دیر تک ملیے تاکہ تمام صابن اتر جائے اور ہاتھوں پر صابن کی ہلکی سی تہہ بھی نہ رہ پائے-

ہاتھ دھونے کے بعد انہیں صاف اور خشک تولیے یا ٹشو پیپر سے صاف کرنا ضروری ہے- اگر آپ ہاتھ دھونے کے بعد گیلے ہاتھوں سے کسی سطح کو چھوئیں گے تو وائرس اور بیکٹیریا آپ کے ہاتھوں کو دوبارہ چمٹ سکتے ہیں- تولیے سے متعلق یہ احتیاط ضروری ہے کہ تولیہ خشک ہو اور صاف ہو- ایک ہی تولیے کو کئی دن تک استعمال کرنے سے تولیے میں بیکٹیریا اور وائرسز کے موجود ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے- تولیے کو ہر روز دھو کر دھوپ میں سکھائیے

Advertisements
julia rana solicitors

اس کے علاوہ اپنے سیل فون کو sanitize کرنے پر خصوصی توجہ دیجیے- اگر آپ کے ہاتھ گندے ہیں اور آپ ان ہاتھوں سے سیل فون کو استعمال کر رہے ہیں تو سیل فون پر بھی وائرس موجود ہوں گے- اب اگر آپ اپنے سیل فون کو بغیر ڈس انفیکٹ کیے جیب میں ڈال لیں، خوب اچھی طرح ہاتھ دھوئیں، لیکن ہاتھ خشک کر کے پھر سیل فون کو استعمال کرنا شروع کر دیں تو سیل فون سے وائرس دوبارہ آپ کے ہاتھوں پر منتقل ہو جاتے گا- اس لیے آپ جب ہاتھ دھوئیں اس کے ساتھ ہی سیل فون کو بھی الکوحل یا سینیٹائزر سے صاف کریں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کورونا وائرس سے بچنے کے لیے ہاتھ دھونا کیوں ضروری ہے۔۔ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی

  1. ویسے حیرت ہے جس وائرس کو محض صابن سے ہاتھ دھونے سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے اس کی دوا ابھی تک یہ سائنس دان دریافت نہیں کرسکے۔

Leave a Reply