ہمارا ڈر کیوں ختم ہو ا؟۔۔اسرار احمد

ٹی وی،اخبارا ت اور سوشل میڈیا ہر جگہ ایک ہی بات سننے کو مل رہی ہےکہ عوام کرونا  وائرس کو سیریس  نہیں لے رہی ،حکومت نے چھٹیوں کا اعلان کیا تو تفریحی مقامات آباد ہوگئے،لوگ پکنک پر نکل گئے۔دعوتوں کا اہتمام ہورہا ہے،شادیاں ہو رہی ہیں۔ایک دوسرے کے گھر ایسے آ جا رہے ہیں ، جیسے کوئی تہوار منایا جارہا ہو۔سوشل میڈیا پر لاتعداد میمز بن رہے،اس کا بے تحاشامذاق اڑایا جارہا ہے ،حالانکہ دیگر ممالک کے حالات اس کے برعکس ہیں۔چین اٹلی اور ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے ،خوف کی وجہ سے سڑکیں سنسان ہیں۔اتنی  اموات ہوچکی ہیں کہ دفنانے کی جگہ کم پڑ رہی ہے لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی، ہمیں تو ذرا سا بھی خوف محسوس نہیں ہورہا ۔کوئی سیریس لینے کو تیار ہی نہیں کہ کرونا کتنا مہلک ہے۔

آخر کوئی تو وجہ ہوگی اس بے خوفی کی کہ جس کا ٹیسٹ پازیٹیو بھی آرہا ہے ،تو وہ بھی بجائے علاج کرانے کے بھاگنے کے چکر میں ہے اور ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔
اگر ہم زیادہ نہیں محض پچھلے بیس برس پر نظر دوڑائیں تو کیا کچھ نہیں دیکھا، شروع میں ہم بھی بڑے حساس ہوا کرتے تھے ،محلے میں کوئی شخص مرتا تو سب کے گھروں پر سوگ طاری ہو جاتا تھا۔قتل و غارت کا نام سن کر سب ہی کانپ جاتے تھے۔

بم دھماکے ہوتے تو کئی کئی روز غم کی فضا قائم رہتی ،گھنٹوں اس کی مذمت پر صَرف کیے جاتے،  پھر رفتہ رفتہ ان کی تعداد بڑھتی گئی اور ہم بھی عادی ہوتے گئے۔ایک وقت پر تو ایسے حالات ہو گئے کہ ایک دن میں کئی شہر نشانہ بنتے مگر ہمیں لگتا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں،ان پچھلے بیس برسوں میں ہم نے کیا نہیں دیکھا،دہشت گردی،ٹارگٹ کلنگ،زلزلہ،سیلاب،کرپشن،غربت،مہنگائی حتی کہ سکول کے بچے ہمارے سامنے قتل ہوئے،ان کے سروں میں گولیاں چلائی گئیں۔60000 سے زائد لوگ تو صرف دہشتگردی میں مارے گئے۔اس کے علاوہ پتہ نہیں کتنے لوگ ہم نے مختلف سانحات میں مرتے دیکھے۔لیکن اب ہم رسمی غم کے اظہار سے زیادہ کچھ کرتے ہی نہیں۔اس ساری صورتحال پر مجھے 2014 کی مشہور فلم میری کوم کا ڈائیلاگ یاد آرہا ہے کہ

‘کبھی  کسی کو اتنا بھی مت ڈراؤ کہ ڈر ہی ختم ہو جائے”

ہمیں تو آج تک اتنا ڈرایا گیا کہ ہمارا ڈر ہی ختم ہو گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جنگ کی بات شروع ہو تو بجائے خوف کے ہمارے چہرےخوشی سے جگمگا اٹھتے ہیں جیسے جنگ نہیں عید ہونے والی ہو۔ہم تو اس بچے کی مانند ہوچکے ہیں کہ اگر اس پر زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کی جائے تو وہ ڈھیٹ ہو جاتا ہے۔ہم بھی ڈھیٹ ہوچکے ہیں۔اس قوم نے اتنا کچھ دیکھا کہ کرونا وائرس جو کہ اس وقت انتہائی مہلک ترین  وبا ہے جس کے بچاؤ کے لیے صبح شام ٹی وی پر لیکچرز دیے   جارہے ہیں۔شہر کے شہر بند ہو رہے لیکن ہمیں ڈر نہیں لگ رہا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماراڈر تو کب کا ختم ہوگیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply