مینارِ پاکستان کی کہانی۔عہدِ رفتہ کی نشانی۔۔۔اکرام چوہدری

مینارِ پاکستان، پاکستان کی ایک اہم قومی عمارت ہے۔ اس مینار کو لاہور میں عین اُسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے، یہاں 23 مارچ 1940ء کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارات میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں قرار دادِ پاکستان منظور ہوئی تھی۔قبل ازیں اس جگہ کو اُس وقت منٹو پارک کہا جاتا تھا، جو سلطنتِ برطانیہ کے زیرِانتظام تھا۔ اب یہ اقبال پارک کے نام سے معروف ہے۔ قیامِ پاکستان کے حوالے سے جب اس تاریخی مقام کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے منصوبہ بنایا گیا، تو مختلف آراء سامنے آئیں کہ اس جگہ کوئی ’’یادگار‘‘ تعمیر کی جائے، مگر اسے علامت اور عمارت کے طور پر کیا صُورت دی جائے۔ آیا، اس تاریخی مقام پر کوئی عظیم الشان باغ بنایا جائے، یا پھرشان دار مسجد، کُتب خانہ، عجائب گھر، درس گاہ یا مینار بنایا جائے۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد بالآخر ایک عظیم الشان مینار کی تعمیر کا فیصلہ ہوااور 1960ء میں اُس وقت کے صدرِمملکت، فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایک کمیٹی تشکیل دی، جس کی سفارشات کی روشنی میں ڈیزائن کی منظوری دی گئی۔
بعد ازاں ،معروف دانش ور مختار مسعود کی زیرصدارت مجلس تعمیر کے اجلاس میں غور ہوا کہ ”یادگار“ وہ نشانِ خیر ہے جو مرنے کے بعد باقی رہے۔جب یادگار کا عام تصور موت اور فنا ہے،تو قرار دادِپاکستان جو ایک زندہ جاوید حقیقت ہے،اس سے اس کا کیا تعلق۔اس لیے منصوبے سے یادگار کا لفظ خارج کرکے اس کا نام ”مینارِقرار دادِ پاکستان“رکھ دیا گیا۔مگر ستم ظریفی دیکھیے! اہلیانِ لاہورآج بھی اسے ،، یادگار ،، کہہ کر ہی پکارتے ہیں۔
تعمیراتی اعتبار سے اسلامک، مغل اور جدید فنِ تعمیر کے حسین امتزاج اورعظیم الشّان مینارکا نقشہ، مایۂ ناز ماہرِتعمیرات، نصرالدین مرات خان نے تیار کیا۔ تعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23 مارچ 1960ء میں شروع کیا اورآٹھ سال کی مدّت میں 31 اکتوبر 1968ءکو کل 75لاکھ روپے کی لاگت سے اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ نصر الدین مرات خان نے مینارِ پاکستان کے اردگرد ماحول کو خُوب صُورت بنانے اوراس کی اہمیت کو چار چاند لگانے کے لیے مینار کے ارد گرد کچھ عمارات کی تعمیرکا خاکہ بھی پیش کیا، مگر نامساعد حالات نے ان کے خوابوں کو تعبیر سے ہم کنار نہ ہونے دیا۔ نصیرالدین مرات خان کا تعلق روسی ریاست داغستان سے تھا۔انہیں روسی حکومت کی طرف سے بہترین نقشہ نویسی پر کئی انعامات ملے،مگر روسی کمیونسٹ پارٹی سے اختلاف کی بنا پر جرمنی چلے گئے۔قیام پاکستان کے بعد انہوں نے مستقل لاہور میں سکونت کا فیصلہ کرلیا اور جرمنی چھوڑ کر 1950ء میں پاکستان آگئے۔انہوں نے مینارِ پاکستان کے ڈیزائن اور نگرانی کے کام کا معاوضہ جو تقریبااَڑھائی لاکھ بنتا تھا نہیں لیا،بلکہ تعمیراتی کام کی نگرانی پر مامور اپنے عملے کوتنخواہ بھی اپنی جیب سے دی۔حکومتِ پاکستان نے مرات خان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں’’تمغۂ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا۔
واضح رہے کہ مینارِ پاکستان ہائپر بولاڈیزائن میں تعمیر کیا گیا ہے،اس ڈیزائن میں عمارت کی چوڑائی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا بیشتر سامان پاکستانی ہے۔سنگِ سرخ اور سنگِ مرمر ضلع ہزارہ اور سوات سے حاصل کیا گیا۔لوہے اور کنکریٹ سے تعمیر کیا گئےاس مینارکی بلندی 196 فٹ6انچ ہے۔جب کہ ٹاپ پر ساڑھے سولہ فٹ اسٹین لیس اسٹیل کا گنبد نصب کیا گیا ہے جس سے روشنی منعکس ہو کر ہر سو کرنیں بکھیرتی ہے۔ مینار میں 5گیلریاں اور 20منزلیں ہیں پہلی گیلری 30فٹ کی اونچائی پر ہے۔جس کے بعد کی بالائی منزل پر جانے کے لیے پہلی منزل 95سیڑھیوں کے بعد آتی ہے۔ٹاپ فلور پر جانے کے لیےٹوٹل 255سیڑھیوں کے علاوہ برقی لفٹ بھی نصب کی گئی ہے۔
مینارِ پاکستان کی تعمیر میں پاکستان کے ابتدائی ادوار میں پیش آنے والی مشکلات کی عکاسی انتہائی تکنیکی مہارت سے کی گئی ہے۔مینار کی بنیاد پر پانچ مختلف تختے نصب ہیں۔جو اس بات کی غمّازی کرتے ہیں کہ پاکستان کس طرح بے سروسامانی کے عالم میں کٹھن مراحل طے کر کے حاصل کیا گیا تھا۔ پہلا تختہ کھردرا اور ناراشیدہ ہے یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان آزادی کے وقت کن دگرگوں حالت کا شکار تھا۔دوسرے تختے میں پتھروں کو ترتیب اور تراش دی گئی ہے،تیسرے تختے میں پتھروں میں ملائمت پیدا کی گئی ہے۔ جب کہ چوتھے تختے پر سنگِ مرمر استعمال کیا گیا ہے۔مذکورہ بالا علامتوں سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کس طرح بتدریج ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔پانچویں تختے میں دو ہلالی چاند کے درمیان ستارے کے پانچ کونے،اسلام کے پانچ ارکان کو ظاہر کرتے ہیں۔سے اوپر مینارِ پاکستان کا ڈیزائن ایسا ہے جیسے پھول اپنی پتیاں کھولے ہوئے ہو۔
مینارِ پاکستان کے نچلے بیرونی حصے پر سنگِ مرمر کی7فٹ لمبی اور 2فٹ چوڑی 19تختیاں نصب ہیں۔ان پر آیات قرآنی خطِ کوفی میں،اسمائے حسنہ خطِ ثلث میں،پاکستان کی آزادی کی مختصر تاریخ، قومی ترانہ، قائد اعظم کی تقاریر سے اقتباسات،علامہ اقبال کی نظم ”خودی کا سرِنہاں لاالہ الااللہ“ خطِ نستعلیق میں اور قرار دادِ پاکستان کا مکمل متن اردو،بنگالی اور انگریزی زبانوں میں کندہ ہیں۔صدر دوازے پر ”اللہ اکبر“ اور ”مینارِ پاکستان“کی تختیاں آویزاں ہیں۔یہ تمام خطاطی حافظ یوسف سدیدی،محمد صدیق الماس، صوفی خورشید عالم،ابن پروین رقم، اور محمد اقبال کی مرہونِ منت ہے۔
مینارِپاکستان کے ارد گرد 18ایکڑ رقبے پر محیط خوبصورت اقبال پارک ہے۔جس میں سبزہ زار،فوارے، رہداریاں اور ایک جھیل بھی موجود ہے۔مینارِ پاکستان کے سائے تلے قومی ترانہ کے خالق حفیظ جالندھری آسودہ ء ِ خاک ہیں۔1984 ء میں ایل ڈی اے نے مینارِ پاکستان کو اپنی تحویل میں لے لیاتھا۔
پنجاب حکومت نے 2015ء میں اقبال پارک کو 125ایکڑ رقبے تک وسعت دیتے ہوئے 981ملین کی خطیر رقم سے پارک کی تزئین و آرائش کا آغاز کیا۔اور سبزہ زار،فوارے،رہداریوں اور جھیل کی توسیع اور مزید خوبصورتی کیساتھ پوئیٹ ریسٹورنٹ اور نیشنل ہسٹری میوزیم کازبردست اضافہ کیا۔اب تاریخی عالمگیری مسجد،شاہی قلعہ اور علامہ اقبال کے مزار کو بھی پارک کی حدود میں شامل کر کے اسے ،،گریٹر اقبال پارک ،،کا نام دیدیا گیا ہے۔اور ایک نیا محکمہ پارک اینڈ ہارٹیکلچرل قائم کر کے اس کا انتظام و انصرام اسے دیدیا گیا ہے۔

Facebook Comments

اکرام چوہدری
معلم،کالم نگار،اسلامی تحقیق کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply