جمہوریت و ملوکیت۔۔مرزا مدثر نواز

نوے کی دہائی میں ملکی سیاست کے دو ہی درخشاں ستارے تھے‘ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی۔ اگر میں ان دنوں اپنے علاقے کی تصویر کشی کروں تو عوام مسلم لیگ کو بطور جماعت ایماندار‘ محب وطن‘ مذہبی اور ملکی ترقی کا ضامن سمجھتی تھی جبکہ پیپلز پارٹی کو بدعنوان‘ غیر محب وطن‘ مذہب سے بیزار‘ امریکہ نواز اور ملکی سلامتی و ایٹمی پروگرام کے لیے خطرہ سمجھتی تھی۔ لہٰذا اکثر مسلم لیگ ہی اس حلقے سے کامیاب ہوتی تھی اور آج بھی وہی صورتحال ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے علاوہ جماعت اسلامی بھی اپنا وجود رکھتی تھی اور ان دنوں اس کی اعلیٰ قیادت بھی کافی متحرک تھی لیکن یہ کبھی بھی نمایاں ووٹ حاصل نہیں کر سکی شاید اس کی وجہ اس جماعت کو ایک مخصوص مسلک کے ساتھ منسلک کیا جانا ہے جس سے جماعت ہمیشہ انکار کرتی ہے۔ جب ملک میں الیکٹرانک میڈیا کا ظہور ہوا تو مجھ جیسے کم علم و نالائقوں کو جمہوریت‘ آمریت‘ ملوکیت‘ ون مین شو‘ طالع آزما‘ غاصب‘ قابض‘ طاقتور‘ بااثر جیسے الفاظ سے آشنائی حاصل ہوئی۔ مشرف دور میں ٹاک شوز میں حقیقی جمہوریت اور اس کے ثمرات کے تذ کرہ نے کافی متاثر کیا اور کسی بھی جگہ شخصی و گھرانہ و خاندانی تسلط کی بجائے جمہوریت و جمہوری نظام کی طرف جھکاؤ ہوا۔

شخصی استبداد و مطلق الحکمی بلا شبہ قابل نفرت ہے اور اس حقیقت کا اعتراف لازمی ہے کہ قانونی و سیاسی آزادی میں تمام انسان مساوی الرتبہ ہیں۔ قوم کو اپنے ثمرات ملک سے فائدہ کا حق حاصل ہے اور وہ اس حق میں دوسروں پر مقدم ہے۔ کئی صدیاں پہلے دنیا استبداد و استعباد کے عذاب   میں مبتلا تھی۔ غلامی کی زنجیروں نے اس کا بند بند جکڑ رکھا تھا‘ فرمانروایانِ  ملک‘ امرائے شہر‘ روسائے قبائل‘ اپنے اپنے حلقہ فرمانروائی میں خدائے واحد کے شریک جیسے تھے اور ان کے ہاتھ میں ان کے اطاعت گزاران کی زندگی کا موضوع واحد صرف اپنے قادر قابض کی تکمیل ہوائے نفس و اتباع مرضات تھا۔ ذات شاہی تمام خوبیوں کا مجموعہ‘ ہر قابل احترام سے مقدس اور ہر نقص و عیب سے مبرا تھی۔ فراعنہ مصر دیوتا تھے‘ نمرود بابل کی پرستش کے لیے ہیکل بنتے تھے‘ ہندوستان کے راجہ دیوتاؤں کے اوتار بن کر زمین پر اترتے تھے‘ روما کا پوپ بقول ان کے‘ خدا کے فرزند (نعوذ بااللہ) کا جانشین تھا اور اس کا آستانہ قدس سجدہ گاہ ملوک و سلاطین۔ روم کے قیصر اور فارس کے کسریٰ گو دیوتا نہ تھے لیکن فطرت بشریہ سے منزہ اور مرتبہ انسانیہ سے بلند تر ہستی تھے‘ جن کے سامنے بیٹھنا ممنوع‘ جن کے سامنے ابتدائے کلام گناہ‘ جن کا نام لینا سوء ادب اور جن کی شان میں ادنیٰ سا اعتراض بھی موجب قتل تھا۔ بیت المال ملکی سامان مصرف‘ رعایاملک غلامان درگاہ شہنشاہی تھے۔

دنیا غلامی اور ذلت و تحقیر میں تھی کہ بحر احمر کے سواحل پر ریگستانی سر زمین میں ایک عربی بادشاہ کا ظہور ہوا‘ جس نے اپنے معجزانہ زور و توانائی سے قیصر و کسریٰ کے تخت الٹ دیئے‘ بابائے رومتہ الکبریٰ کے ایوان قدس کی بنیادیں ہلا دیں‘ پرستش و غلامی کی زنجیریں اس کی شمشیر غیر آہنی کی ایک ضرب سے کٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں اور استقلال ذات و فکر‘ حریت خیال و رائے‘ شرف و احترام نفس‘ مساوات حقوق اور شہنشا ہی کو باطل تصور کرنے کی روشنی ملک عرب کے قلب سے نکل کر تمام دنیا میں پھیل گئی۔ شاہان عالم مرتبہ قدوسیت و معصومیت سے گر کر عام سطح انسانی پر آ گئے اور عام انسان سطح غلامی و حیوانیت سے بلند ہو کر مصر و بابل کے دیوتاؤں اور روم و ایران کے قیصر و کسریٰ کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہو گئے۔ انسانی جباری و الوہیت کے بت سر نگوں ہو کر گر پڑے۔ شہنشاہیوں کا پر اسرار اور عجیب الخواص طلسم ٹوٹ گیا‘ بادشاہ‘ خادم رعایا‘ بیت المال‘ خزینہ عمومی اور تمام انسان مساوی الرتبہ قرار پاگئے۔ عرب کے بادشاہ نے نہ اپنے لیے قصر و ایوان تیار کرایا‘ نہ قیمتی قالینوں کے فرش بچھائے‘ نہ سونے چاندی کی کرسیوں سے دربار سجایااور نہ اس نے اپنی ہستی کو انسانیت سے مافوق بتایا بلکہ علی الاعلان کہہ دیا کہ میں بھی تمہاری ہی طرح ایک آدمی ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسلام نے حکومت اسلامی کا جو نظام قرار دیا‘ وہ ایک ایسی چیز تھی جو اس کے گردو پیش کے نظامات حکومت میں کہیں بھی موجود نہ تھی۔ اس نے ایک باقاعدہ قانونی و جمہوری حکومت کی بنیاد ڈالی۔ حقوق عامہ کی تشریح و تعیین کی‘ تعزیرات‘ حدود و جرائم کے مناصب قائم کیے‘ مالی‘ ملکی اور انتظامی قوانین وضع کیے‘ عدل و انصاف کی تعلیم دی‘ قانونی تسامح و استثنائے شخصی کی ممانعت کی‘ شخصی حکومت و ذاتی امتیاز کو یک قلم مٹا دیا۔ قرآن کریم کی سورہ آل عمران کی آیت نمبر ایک سو انسٹھ میں ارشاد ہوتا ہے کہ امور حکومت میں اے نبی! مسلمانوں سے مشورہ لے لیا کرو۔ سورہ الشوریٰ کی آیت نمبر 38 میں فرمایا کہ ان کی حکومت باہمی مشورہ سے ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اسلامیہ میں مشورہ عام شرط ہے‘ حکومت اسلامیہ کسی کی ذاتی ملک نہیں بلکہ جمہور اسلام کی ملک ہے۔ اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو آپﷺ نے اور خلفائے راشدین نے اپنا جانشین کسی عزیز یا اپنے بیٹے کو نہیں بنایا‘ تمام معاملات ضروری میں آپ اور خلفائے راشدین مہاجرین و انصارسے خصوصاََ اور عام مسلمانوں سے عموماََ مشورہ لیتے تھے‘ بیت المال عام مسلمانوں کا حق تھا‘ کبھی ذاتی طور پر اس کو صرف میں نہیں لایا گیا اور اسی لیے اس کا نام بیت مال المسلمین تھا۔ حالانکہ اگر اسلام شخصی حکومت کی بنیاد رکھتا تو یہ کام حکومت اسلامیہ میں انجام نہ پاتے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply