کیا مساجد بند کر دی جائیں؟۔۔طفیل ہاشمی

میں نے آج اپنی بیٹی سے جو مائیکروبیالوجسٹ ہے کرونا وائرس پر ایک لیکچر لیا۔۔
جس سے مجھے معلوم ہوا کہ۔۔ہمیں اس وبا کی ہولناکی اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم کی گئی ہیں جبکہ ضرورت ہے کہ بڑے پیمانے پر تمام میڈیا کے ذرائع سے اس وبا اور اس کے ممکنہ اثرات سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے حکومت کی بے اعتنائی سے لگتا ہے کہ ان کی خواہش ہوگی کہ اگر بائیس کروڑ میں سے سولہ کروڑ کم ہو جائیں تو ہمہ جہتی آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں میری رائے یہ تھی کہ بوڑھوں، بچوں اور مریضوں کے سوا باقی افراد جمعہ اور جماعتوں میں شریک ہوں مگر تازہ ترین بریفنگ سے معلوم ہوا کہ صحت مند اور مضبوط قوت مدافعت کا حامل فرد بھی وائرس کا کیریئر Carrier ہو سکتا ہے یعنی عین ممکن ہے کہ مسجد جانے والا جوان اور صحت مند شخص وہاں سے وائرس لے آئے اور خود تو بچ جائے یا معمولی متاثر ہو لیکن گھر میں آکر بیوی، بچوں، والدین اور دیگر کئی افراد کو متاثر کر دے یہ سب سے خطرناک صورت حال ہے آپ کے ساتھ مسجد میں سجدے کی حالت میں کھانستے یا چھینکتے ہوئے بندے سے آپ خود کو کیسے بچا سکتے ہیں
مان لیجیے کہ میری قوت ایمانی یا توکل اتنا مستحکم ہے کہ سوچتا ہوں جماعت نہیں چھوڑ سکتا، کیا ہے؟؟ زیادہ سے زیادہ مر ہی جاؤں گا، ویسے بھی ایک دن مرنا ہے
لیکن
اصل سوال یہ ہے کہ کہ اگر میں بیمار ہو کر وہی بیماری مزید سینکڑوں لوگوں کو منتقل کرنے کا سبب بنتا ہوں تو کیا ان کا خون میری گردن پر نہیں ہوگا اور ان کی موت کا میں ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاؤں گا کیا مجھے یہ حق پہنچتا ہے کہ میں اپنے جذبہ ایمانی کی تسکین کے لیے دوسروں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن جاؤں
اسلامی شریعت کی رو سے جان کاتحفظ شریعت کے مقاصد میں سے ہے، اپنے آپ کو شرعی حکم کے بغیر موت کے لئے پیش کر دینا یا کسی دوسرے کی زندگی کے لیے خطرہ بننا شرعا جائز نہیں ہے
کتاب اللہ کی رو سے انسانی زندگی تین مختلف حالتوں میں ہوتی ہے
1_معمول کی حالت، اس میں تمام شرعی مطالبات کی بأحسن وجوہ تکمیل ضروری ہوتی ہے
2_عسر یعنی تنگی کی حالت، جو معمول کے حالات اور اضطرار کی حالت کے درمیان کی حالت ہے
اس حالت میں شرعی مطالبات میں تخفیف ہو جاتی ہے، قرآن میں ہے یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر، اور ما جعل علیکم فی الدین من حرج، اسی بنا پر فقہ میں اصول ہے، الأمر اذا ضاق اتسع
جب تنگی پیدا ہو تو گنجائش پیدا کی جاتی ہے
3_اضطرار، یعنی مشکل ترین حالات جن میں جان جانے کا خوف ہو یا دیگر کسی بڑے نقصان کا، ایسے حالات میں جان بچانے کے لیے کلمہ کفر کہنا اور حرام کھانا جائز ہو جاتا ہے
میرے خیال میں موجودہ حالات نہ تو محض وہم ہیں کہ ان کو درخور اعتنا نہ سمجھا جائے اور نہ اضطرار کی حد تک ہیں، انہیں شریعت کے ضابطہ عسر کی بنا پر حل کرنا چاہئے
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ حج اور عمرہ کے دوران اگر منی اور عرفات میں پہنچنا ممکن نہ ہو تو جہاں رکاوٹ آجائے وہیں ہدی ذبح کر کے یا اس کے بغیر (فقہا کا اختلاف ہے) احرام کھول دے
غور کیا جا سکتا ہے کہ کیا کرونا وائرس جمعہ اور جماعت کے لیے احصار یعنی رکاوٹ کی حد میں داخل ہو گیا ہے یا نہیں
مسلم تاریخ میں ایسے متعدد واقعات ہیں کہ مسجد نبوی اور حرم مکی میں ہنگامی حالات کی وجہ سے کئی کئی روز نمازیں نہیں ہو سکیں یادش بخیر مدینہ پر اموی سالاروں کے حملے میں تین روز تک مسجد نبوی میں اذان تک نہیں ہوئی تھی
اندلس پر جب فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کا قبضہ ہوا تو انہوں نے مسلمانوں پر نماز پڑھنے، تلاوت کرنے وغیرہ کی پابندی عائد کر دی حتی کہ رات کو گھروں پر چھاپے مارے جاتے تھے کہ کہیں چھپ کر نماز نہ پڑھ رہے ہوں اس دور میں مراکش کے علما نے یہ فتوی دیا تھا کہ جو مسلمان وہاں سے ہجرت نہیں کر سکتے وہ نمازوں کے اوقات میں دل ہی دل میں خیال سے نماز ادا کر لیا کریں
یہ تو اضطراری حالات ہیں لیکن اگر فتاوی میں حالات و زمانے کی رعایت نہ کی جائے تو اس سے بحیثیت مجموعی یہ نقصان ہوتا ہے کہ سماج میں یہ تاثر پروان چڑھتا ہے کہ مذہبی طبقہ Stupid ہوتا ہے
تاہم
اگر ایسے کسی فیصلے کے لئے حکومت کے اعلان کا انتظار کیا گیا اور اس پر عمل درآمد کیا گیا تو اس سے ایک بہت بڑی خرابی کی راہ کھلے گی اور وہ یہ کہ حکومت کو جو بالعموم دین بیزار افراد پر مشتمل ہوتی ہے شعائر اسلام میں در اندازی کا موقع ملے گا میرے خیال میں مناسب یہ رہے گا کہ
اسلامی نظریاتی کونسل ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے جید علماء اور مفتیان کرام نیز اعلی غير سرکاری طبی ماہرین کی میٹنگ بلا کر طبی ماہرین سے معلوم کریں کہ وائرس کے خطرے کا لیول کیا ہے اور پھر ایک متفقہ فیصلہ کر لیں جسے موجودہ صورت حال میں اجماع کا درجہ حاصل ہو جائے

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply