بیٹا امیر بن جاؤ۔۔۔چوہدری محمد عاطف آرائیں

سکولز ، کالجز سے لاکھوں لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں خواہش  زیادہ جاننے کی نہیں ہوتی سب کی خواہش ہوتی ہے اس پڑھائی کے بعد امیر بننا ہے گاڑی بنگلہ ملے گا عیش کرنی ہے

مگر حقیقت اس کے برعکس ہے انسان کو تعلیم باشعور بننے کے لیے دی جاتی ہے نہ کہ امیری کی ریس میں دوڑنے کےلئے  کسی شخص کو امیری یا غریبی دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے کسی تعلیمی ادارے کے ہاتھ میں نہیں ہے اسلام میں علم حاصل کرنا فرض ہے اللہ کا شکر ہے ہم یہ فرض ادا کر رہے ہیں,لیکن کبھی سوچا ہمارا معاشرہ کیا کر رہا ہے ہم سب دولت کی چاہ میں  اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ دنیا میں آنے کا مقصد بھول گئے ہیں میرا ماننا ہے کہ ہمیں لالچ میں نہیں پڑنا چاہیے جو اللہ دے اس پر راضی رہیں اور روکھی سوکھی  کھا کر بھی اللہ کا شکر ادا کریں کیونکہ دنیا میں ہم خالی ہاتھ ہی آئے تھے سب کچھ ہمیں اللہ نے ہی عطا کیا ورنہ ہمارے پاس تھا ہی کیا۔آج لوگ دولت کی تلاش میں ہیں امیر ہونے کے خواب زیادہ سے زیادہ دولت مل جائے پھر سکون ملے گا نہیں سکون صرف اللہ کی رضا میں ہے بتائیں اللہ نے کب کہا لالچ میں پڑو جتنا ملتا ہے شکر ادا کرو اور کہیں ناکام ہو جاؤ تو صبر کرو اور پہلے سے بھی زیاہ محنت کرو پھر پھل پاؤ گے۔

گاڑی یا بنگلہ بنا لینے سے آپ کی دنیاوی زندگی میں تو لازمی فرق پڑے گا  لیکن آخروی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا یہ چیزیں خریدنے پر اللہ ہمیں آخرت کے لئے کوئی پوائنٹس نہیں دے رہا  کیوں کہ اللہ نے گاڑی یا بنگلہ لینے والے کو کوئی انعام دینے کا نہیں کہا انعام و کرام ان کے لئے ہیں جو سچے مومن ہیں اللہ سے ڈرتے ہیں وہ جو عطا کر رہا ہے اس پر راضی ہیں  نا شکری نہیں کرتے جو صبر کرتے ہیں اللہ انہیں اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے اتنی نعمتیں دیتا ہے کہ پھر اللہ  کے آگے جھولی پھیلانا بھی ایک نعمت بن جاتی ہے۔

ہماری دنیاوی زندگی میں اور آخروی زندگی میں جو عمل یکساں تبدیلی لا سکتا ہے وہ ہے دین اسلام سے محبت اللہ سے محبت حضرت محمدؐ سے عشق آپ ؐ کو دولت کی کوئی چاہ نہیں تھی اللہ کے رسول ؐ  ہو کر بھی سادگی سے زندگی بسر کی آج محلوں میں سونے والے خود کو بہت بڑا بادشاہ تصور کرتے ہیں ہمارے رسول ؐ بادشاہوں کے بادشاہ تھے وہ ٹوٹا بوریا بچھا کر سوتے تھے حضرت محمد ؐ دو جہانوں کے سردار تھے  میرے آقا ؐ کی عاجزی اور انکساری لاجواب تھی، مجھے کسی رئیس  کی دولت شہرت کا  مت  بتاؤ، میں حضرت محمد ؐ کا امتی ہوں جن کے پاس علم کی دولت تھی آج اس مقام کو جو میرے نبی ؐ نے دولت کے بغیر پایا کوئی رئیس دولت شہرت سے ویسا مقام پانا تو دور کی بات اس مقام کو چھو بھی نہیں سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گاڑی بنگلہ بنا کر دنیا میں مزے پائے جا سکتے ہیں آپ شوق سے پائیں مگر آپ اتنی ہمت ضرور رکھنا کہ آخرت میں حساب دے سکو،آج آپ کے پاس دولت آجائے زیادہ تر  لوگوں کی خواہش ہوگی کہ اس دولت سے گاڑی  یا گھر لیں گے، مگر مسلمان ہوتے ہوئے بھی یہ خواہش کیوں نہیں جاگی، کہ  ہم اس دولت سے پہلےمسجد بنائیں گے یا ضرورت مندوں میں تقسیم کریں گے پھر جو بچا اس سے ضرورت پوری کر لیں گے مگر آج یہ سوچ کہاں ہم آج دنیا میں ذلیل و رسواہ ہو رہے ہیں اور انگریز کفار ہم کو آنکھیں دکھا رہے ہیں، کیونکہ ہم  نے دین اسلام ایک نام کا دین بنا دیا ہے ہم نام کے مسلمان بنے پھرتے ہیں اسلام سے دور ہونے کی وجہ سے اللہ نے ہم کو خود سے دور کردیا ہے ہمیں دامنِ رسول ؐ  تھام لینا چاہیے امتِ محمدی ؐ ہیں ہم  سچے امتی رسول ؐ بن گئے تو کفاروں کے ٹولوں کو عبرتناک شکست ہو گی اللہ ہم سب کو دین اسلام پر قائم رکھے ہم صرف امیر ہونے کے لیے نہیں آئے ہمارا مقصد کچھ اور ہے اس دنیا میں ہمارا امتحان ہو رہا ہے یہاں سے ہی اندازہ لگا لیں کے اللہ دنیا میں امیری غریبی کا فیصلہ کر رہا ہے محلوں میں سونے والے اور فٹ پاتھ پہ سونے والے دونوں ایک جیسی مٹی میں مل رہے ہیں امیر زندگی نہیں خرید سکتا اسکا بھی انجام موت ہی ہے جو ایک غریب کا بھی ہے ہم سب کی زندگی کا آغاز چاہے مختلف ہو رہن سہن مختلف ہو ہم سب کا انجام ایک جیسا ہی ہے۔
بھاڑ میں جائے یہ امیری
راس ہے ہمیں فقیری

Facebook Comments

محمد عاطف ارائیں قادری
I am Poet & Writer from Rawalpindi Pakistan

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply