صرف جماعت اسلامی؟۔۔آصف محمود

عمران خان سے مایوسی بڑھی تو جماعت اسلامی نے نعرہ دیا : حل صرف جماعت اسلامی ، سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے متحرک نوجوانوں نے اس نعرے کو تفنن طبع کا عنوان بنا کر اڑا دیا۔ اس کا منطقی انجام بھی یہی تھا کیونکہ جماعت اسلامی کے محدود تر ووٹ بنک کے پیش نظر یہ نعرہ غیر معمولی مبالغہ آمیزی اور سادگی کا حسین مرقع تھا۔لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے ، اس ملک میں جب بھی افتاد آن پڑی ، وہ زلزلہ ہو ، سیلاب ہو ، کرونا وائرس کی وبا ہو ، سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی کے سواکبھی کسی اور نے آپ نے مدد کی؟ اس نعرے سے تو اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ حل اب صرف جماعت اسلامی لیکن اس سے اختلاف ممکن ہی نہیں کہ جب بھی افتاد پڑتی ہے، مددگار صرف جماعت اسلامی ہی ہوتی ہے۔’’حل‘‘ نہ سہی ’’معاون اور مددگار‘‘ ہی سہی لیکن ہے صرف جماعت اسلامی۔ تازہ بحران کرونا وائرس کا ہے۔جس وقت حکومت وقت کو سمجھ نہیں آ رہی کرنا کیا ہے اس وقت جماعت اسلامی تھر پارکر سمیت کئی مقامات پر آئسولیشن وارڈ قائم کر چکی ہے۔ ذرا اس آئسو لیشن وارڈ کو دیکھ لیجیے اور پھر اس بھوت بنگلے کو بھی دیکھیے جو ایران کی سرحد پر وفاقی حکومت نے قائم کیا ہے ۔وزیر اعظم ذاتی نگرانی فرما رہے ہیں لیکن ان کے اپنے حلقہ انتخاب اور ملک کے دارالحکومت میں ماسک نہیں مل رہے۔ جماعت اسلامی کے لوگ یہ ماسک مفت تقسیم کر ہے ہیں۔ وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کیا لیکن متن کی معاشی حالت اتنی خراب تھی کہ وزیر اعلی سندھ کے لیے ان کے پاس تحسین کا ایک جملہ بھی نہیں تھا۔جماعت اسلامی بھی اسی سیاسی کلچر کا حصہ ہے لیکن اس نے وزیر اعلی سندھ کو خط لکھ کر پیش کش کی ہے کہ جماعت اسلامی اور الخدمت کے تمام رضاکار وں کی خدمات حکومت سندھ کو پیش کرتے ہیں، یہی نہیں جماعت اسلامی کے الخدمت ہسپتالوں کی تمام لیبارٹریاں سندھ حکومت کو مفت استعمال کرنے کی پیش کش کی ہے۔میدان حاضر ہے ، خود کچھ کرنے کی توفیق نہیں تو ذرا تحریک انصاف بھی وزیر اعلی سندھ کو ایک خط لکھ کر دکھائے کہ ہم اتنے رضاکاروں کی خدمات حکومت سندھ کو پیش کر رہے ہیں۔مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی ایسا ہی کوئی خط عثمان بزدار یاوزیر اعظم کو لکھ کر دکھائے کہ ہم اپنے رضاکاروں کی خدمات آپ کو پیش کر رہے ہیں۔ گلی گلی فنڈ لینے والاذرا شوکت خانم ہسپتال بھی ذرامفت ٹیسٹ کر کے دکھائے۔ سوشل میڈیا پر تنخواہ دار ہرکارے رکھ کر طوفان بپا کیے رکھنا اور چیز ہے اور خدمت خلق کے لیے میدان عمل میں آنا اور چیز ہے۔دیگر جماعتوں کا بھی یہی دعوی ہے کہ ان کی جدوجہد کا مرکزی نکتہ عوام کی فلاح ہے تو پھر سوال تو پیدا ہو گا کہ جب عوام کو کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے یہ ساری جماعتیں کہاں چلی جاتی ہیں۔میدان عمل میں صرف جماعت اسلامی کیوں رہ جاتی ہے۔تحریک انصاف کے ہاں تو اجماع امت ہے کہ شوکت خانم ہسپتال کے بعد اب کسی فلاحی کام کی ضرورت نہیں ہے لیکن جماعت اسلامی ملک بھر میں الخدمت ہسپتال چلا رہی ہے جہاں سیاسی وابستگی سے بالاتر سب کا علاج ہوتا ہے اور عزت نفس پامال کیے بغیر ہوتا ہے۔غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ بھی ایک غیر معمولی اور شاندار پراجیکٹ ہے۔یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کی تحسین نہ کرنے کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔اول: آدمی اس سے لاعلم ہو۔ دوم: وہ متعصب اور بد دیانت ہو۔ جماعت اسلامی کے الیکشن جیتنے کا کوئی امکان نہیں۔دور دور بلکہ بہت دور تک ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔لیکن اس کے باوجود ملک کے جس حصے میں کوئی افتاد آن پڑتی ہے جماعت اسلامی پہلی ، واحد اور آخری سیاسی جماعت ہوتی ہے جو سیاسی تعصبات سے بے نیاز ہو کر لوگوں کی مدد کرتی ہے۔جماعت اسلامی کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اس کے فلاحی کردار کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس ملک میں فلاحی ریاست کا کوئی سیاسی عنوان ہو سکتا ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔اس کی انتخابی سیاست غلطی ہائے مضامین کا مجموعہ اور ناکامیوں کا دیوان سہی ، اس کا فلاحی کام اس قابل ہے کہ اس کی تحسین ہی نہ کی جائے اس پر رشک بھی کیا جائے۔ اس کی افرادی قوت ہے ہی کتنی؟ لاہور میں انتخابی معرکہ ہوتا ہے تو شہر بھر میں قائم جامع مسجدوں سے بھی کم اس کے ووٹ ہوتے ہیں ۔دولت مند لوگ بھی اس قافلے میں آخر کتنے ہوں گے؟ شاید انگلیوں پر ایک سانس میں گن لیے جائیں۔کیا آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ یہ گروہ فلاحی ، خیراتی اور غریب پروری کا ایسا غیر معمولی نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ دو تہائی اکثریت اور مقبول ترین رہنما ہونے کے زعم میں مبتلا سیاسی رہنما جس کا تصور نہیں کر سکتے۔ملک پر ایک افتادآن پڑی ہے۔سوال یہ ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں کہاں ہیں۔ بجا کہ بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن سیاسی جماعتیں بھی تو آخر عوام کی فلاح کے لیے ہی قائم ہوئی ہیں۔ہر جماعت کے پاس ہزاروں کی تعداد میں ایسے دولت مند لوگ موجود ہیں جو الیکشن میں کروڑوں روپے پھونکنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کچھ اتنے فیاض ہیں کہ اے ٹی ایم کہلاتے ہیں اور ہر جماعت کے قائد محترم کے قریبی حلقہ احباب میں دو چار اے ٹی ایم موجود ہوتے ہیں۔ قائد کو ضرورت ہو تو اے ٹی ایم نوٹ اگلنے لگتی ہیں۔ اب عوام کو ضرورت ہے تو ان کا ’’ ایشور لنک ڈائون ‘‘ ہوا پڑا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں یہ صرف جماعت اسلامی ہے جو میدان میں کھڑی ہے۔الخدمت کے تمام ہسپتالوں کو ہدایت دے دی گئی ہے کہ کرونا کے حوالے سے اپنی بساط کے مطابق مفت طبی سہولیات دی جائیں۔جماعت اور الخدمت کے تمام دفاتر اور ہسپتال کرونا آگہی اور ریلیف کے مراکز کے طور پر کام کریں گے۔ڈیلی ویجرز کے مسائل کو دیکھنے کے لیے بھی الخدمت میں ذیلی ادارہ قائم کر دیا گیا ہے اور وینٹی لیٹرز کی فراہمی کے لیے عطیات جمع کرنے کا کام بھی شروع ہو چکا ہے ۔خدا نخواستہ کل کو حالات سنگین ہوتے ہیں تو یہ جماعت اسلامی ہی ہو گی جو غریبوں تک راشن پہنچا رہی ہو گی۔جماعت کی غلطیوں پر اگر تنقید پوری شدت سے ہو سکتی ہے تو ان کی خوبیوں کے تذکرے میں کوئی گونگا شیطان کیوں بن جائے؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply