کیا ہمیں ہمارے فیصلےکرنے کا اختیار حاصل ہے؟۔۔ایم وسیم

مجھے  وٹس ایپ پر یہ نظم وصول ہوئی۔۔۔

فیصلہ کرو
کیا یہ وہی زندگی ہے
جو تم جینا چاہتے ہو؟
کیا یہ وہی شخص ہے
جس سے تم پیار کرنا چاہتے ہو؟
کیا تم اس سے بہتر نہیں ہو سکتے؟
کیا تم اس سے زیادہ مضبوط نہیں ہو؟
مہربان؟ زیادہ ہمدرد؟
فیصلہ کرو۔
سانس اندر لو۔
سانس باہر نکالو اور فی  صلہ کرو۔

یہ نظم پڑھنے کے بعد میں اس سوچ میں گم ہو گیا کہ  کیا واقعی ہمیں فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے؟ کیا واقعی ہم اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکتے ہیں؟ جس سے چاہیں پیار کر سکتے ہیں؟ جس سے چاہیں شادی کر سکتے ہیں؟ جس سے چاہیں نفرت کر سکتے ہیں؟ جس سے چاہیں تعلقات قائم کر سکتے ہیں؟ جس سے چاہیں تعلقات ختم کر سکتے ہیں؟ جس سے چاہیں دوستی کر سکتے ہیں یا جس سے چاہیں دوستی ختم کر سکتے ہیں؟

ان تمام سوالوں کے جواب مجھے نفی میں ملے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں سے ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میرا تعلق ایک ایسے گاؤں یا معاشرے سے ہے، جو باقی دنیا سے کوئی نصف صدی پیچھے چل رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں فیصلہ کرنے کا اختیار صرف بڑوں کے پاس ہے قطع نظر اس  کے کہ، ان کا فیصلہ چھوٹوں کو پسند ہے یا نہیں، ان کے لیے بہتر ہے یا نہیں، انہوں نے خود اس فیصلے کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہوا ہے یا نہیں، اگر کیا ہوا ہے تو چونکہ وہ چھوٹے ہیں اور ہم بڑے، اس لیے ہمارا کیا ہوا فیصلہ ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ انہوں نے دو دن شہر کیا دیکھ لیا وہ اب ہمیں بتائیں گے جنہوں نے دنیا دیکھی ہوئی ہے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔ یہاں فیصلے کا اختیار دیا نہیں جاتا، فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ آپ کی رائے معلوم نہیں کی جاتی، آپ پر اپنی رائے مسلط کی جاتی ہے۔

اگر کسی کے  اندر اتنی ہمت ہے کہ وہ اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دے، تو زندگی بھر کے لیے نافرمانی اور بد تمیزی کے میڈلز اسے دے دیے جاتے ہیں، یہ دیکھے بغیر کہ وہ ان میڈلز کا حق دار ہے بھی یا نہیں۔

جب ہمارا یہ معاشرہ(بڑوں) کسی کو فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیتا، تو وہ یہ کیسے گوارہ کر سکتا ہے کوئی شخص اپنی من پسند زندگی گزارنا شروع کر دے۔ اسے وہی زندگی گزارنی ہو گی جس کا انتخاب اس کےبڑوں نے اس کے لئے کر دیا ہے۔ اگر وہ اس سے فرار حاصل کرنا چاہے گا تو تمام بڑے مل کر اسے چاروں طر ف سے گھیر لیں گے اور اس وقت تک اس کا محاصرہ جاری رہے گا جب تک وہ ان کے، اس کے لیے متعین کردہ راہ ِ زندگی پر واپس لوٹ آنے کا فیصلہ نہیں کر لیتا۔ اور اگر وہ کسی طرح ان کے  چنگل سے بچ نکلتا ہے اور اپنے لیے اپنی زندگی کی راہ خود متعین کر لیتا ہے، تو یہ معاشرہ اس کا “بائیکاٹ” اس یقین کے ساتھ کر لیتا ہے، “بچہ تھا کسی نے بہکا دیا ہو گا، باہر نکلے گا دنیا دیکھے گا، طرح طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑے گا، خود ہی واپس لوٹ آئے گا”۔

اگر وہ شخص اپنی متعین کردہ راہِ  زندگی پر ثابت قدم رہتا ہے اور کامیاب ہو جاتا ہے، تو یہ معاشرہ جس نے اس کی راہ میں روڑے اٹکانے اور اس شخص کو پتھر مارنے کے  سوا کوئی کام نہیں کیا ہوگا، اس کی کامیابی کو اپنی کامیابی بتائے گا۔ اور اگر وہ ناکام ہو جاتا ہے تو وہ ناکامی اس کی اپنی ہو گی، ہمارا یہ معاشرہ ایک طرف کھڑا ہو کر اس کی ناکامی کا تماشا  دیکھ رہا ہو گا اور کہے گا، ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا ، جو تم کرنے جا رہے ہو، وہ غلط ہے۔ تمہاری اتنی ہمت کہ تم ہمارے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ کر اپنا راستہ بناؤ۔

“کامیابی کے ہزار باپ ہوتے ہیں، شکست ہمیشہ یتیم ہی ہوتی ہے۔”

اگر تو وہ شخص جس نے اپنی زندگی کی سمت خود متعین کی اور اپنے فیصلے خود کیے ،کامیاب ہو جاتا ہے تو سب اچھا ہے۔ اور اگر وہ ناکام ہو جاتا ہے تو اس کے  حق میں یہی بہتر ہے کہ وہ مر جائے، اگر جینا چاہتا ہے تو اپنے ضمیر کو مار دے یا پھر معاشرے کے مرنے کا انتظار کرے جو بظاہر ناممکن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں جو سوچتا ہوں یا اس حوالے سے میرا جو نقطہء نظر ہے وہ میں نے آپ کے سامنا رکھ دیا۔ اس سے اختلاف آپ کا بنیادی اور جمہوری( چونکہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہ رہے ہیں اور اس ملک میں نام نہاد ہی سہی، لیکن جمہوریت ہے) حق ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply